امیرالمومنین حضرت علی مُرتضیٰ رضی اللہ عنہ

حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ جو کہ امیر المومنین کے طور پر قابل احترام ہیں، اسلامی تاریخ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی اور داماد کے طور پر ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ اسلام کے چوتھے خلیفہ کے طور پر، وہ انصاف، حکمت اور بہادری کے لیے اپنی غیر متزلزل وابستگی کے لیے جانا جاتا تھا۔ وہ دس صحابہ عشرہ مبشرہ میں سے ایک ہیں، جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت سنائی تھی۔ وہ فاتح خیبرکی حثیت سے جانے جاتے ہے جوبے مثال جرات اور ایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے خیبر کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی قیادت اور تقویٰ دنیا بھر کے مسلمان نسلوں کیلئے مشعل راہ ہے۔

تعارف و نام و نسب

علی بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب

کنیت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ کو ابوالحسن اور ابو تراب کی کنیت سے مخاطب فرمایا، آپ کو اپنا نام ابو تراب بہت پسند تھا جب کوئی شخص اس نام سے آپ کو پکارتا تھا تو آپ بہت خوش ہوتے تھے۔ اس نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ایک روز آپ گھر سے نکل کر مسجد میں آئے اور وہیں پر سو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں تشریف لائے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اٹھایا تو ان کے جسم سے مٹی پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ ابوتراب اٹھو۔
(صحیح بخاری کتاب الجھاد،حدیث: ۲۹۷۵، صحیح مسلم کتاب الفضائل، باب فضائل علی)

آپ کی والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت اسد بن ہاشم تھا،
آپ پہلی ہاشمیہ تھیں کہ خاندان بنو ہاشم میں منسوب ہوئیں، اسلام لائیں اور ہجرت فرمائی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے چچازاد بھائی تھے اور داماد بھی، یعنی وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے شوہر تھے، آپ میانہ قد مائل بہ پستی تھے، دوہرا بدن، سر کے بال کسی قدر اڑے ہوئے، باقی تمام جسم پر بال لمبی اور گھنی داڑھی گندم گوں تھے

آپ کی خصوصیات

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھے، آپ ان لوگوں میں سے ہیں، جنہوں نے قرآن مجید کو جمع کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا تھا، آپ بنی ہاشم میں سب سے پہلے خلیفہ تھے، آپ نے ابتدائی عمر سے کبھی بتوں کی پرستش نہیں کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب مکہ سے مدینہ کو ہجرت کی تو آپ کو مکہ میں اس لیے چھوڑ گئے کہ تمام امانتیں لوگوں کو پہنچا دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم کی تعمیل کرنے کے بعد آپ بھی ہجرت کر کے مدینہ میں پہنچ گئے، سوائے ایک جنگ تبوک کے اور تمام لڑائیوں میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ شریک ہوئے، جنگ تبوک جاتے وقت آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عامل یعنی قائم مقام بنا گئے تھے، جنگ احد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک پر سولہ زخم آئے تھے، جنگ خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جھنڈا آپ کے ہاتھ میں دیا تھا اور پہلے سے فرما دیا تھا کہ خیبر آپ کے ہاتھ پر فتح ہو گا

سیدنا حضرت علیؓ کے فضائل

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں رہنے کا حکم دیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ کو عورتوں اور بچوں پر چھوڑ جاتے ہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ میں تم کو اسی طرح چھوڑ جاتا ہوں، جس طرح سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے سیدنا ہارون علیہ السلام کو چھوڑا تھا، ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا

(صحیح بخاری، کتاب المغازی۔ حدیث: ۴۴۱۶)

جنگ خیبر میں رسول اللہ نے فرمایا کہ: کل میں ایسے شخص کو عَلم دوں گا، جس کے ہاتھ پر قلعہ فتح ہو گا اور جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو خوش کر لیا ہے، اگلے روز صبح کو تمام صحابہ رضی اللہ عنھم منتظر تھے کہ دیکھئے وہ کون سا خوش قسمت شخص ہے جس کو عَلم اسلام دیا جائیگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور جھنڈا سپرد کیا اور قلعہ فتح ہوا۔

جب آیتِ مباہلہ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرت حسن رضی اللہ عنہ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا اور کہا کہ: الٰہی یہ میرے کنبہ کے لوگ ہیں

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: جس کا میں دوست ہوں، اس کے علی رضی اللہ عنہ بھی دوست ہیں، پھر فرمایا کہ الٰہی! جو شخص علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھے تو بھی اس سے محبت رکھ اور جو علی رضی اللہ عنہ سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ چار آدمی ایسے ہیں جن سے محبت رکھنے کا مجھ کو حکم دیا گیا ہے، لوگوں نے عرض کیا کہ ان کا نام بتا دیجئے آپ ﷺ نے فرمایا: علی رضی اللہ عنہ، ابوذر رضی اللہ عنہ، مقداد رضی اللہ عنہ، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ

ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابیوں میں بھائی چارہ کرایا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور کہا کہ آپ نے ہر ایک میں مواخاۃ قائم کرادی، لیکن میں رہ گیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔
(سیرت النبیﷺ ابن کثیر، ج ۱، ص ۵۰۸)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ہم سب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ زیادہ معاملہ فہم ہیں۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا تو انہوں نے فرمایا کہ: علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ سنت کا اب کوئی واقف نہیں رہا، سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ دو شخص شقی ترین ہیں۔ ایک احمر، جس نے سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹیں اور دوسرا وہ شخص جو تیرے سر پر تلوار مار کر تیری داڑھی کو جسم سے جدا کرے گا
(طبقات ابن سعد، ج ۳، ص ۱۹۰)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ہم سب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ زیادہ معاملہ فہم ہیں۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا تو انہوں نے فرمایا کہ: علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ سنت کا اب کوئی واقف نہیں رہا، سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ دو شخص شقی ترین ہیں۔ ایک احمر، جس نے سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹیں اور دوسرا وہ شخص جو تیرے سر پر تلوار مار کر تیری داڑھی کو جسم سے جدا کرے گا
(طبقات ابن سعد، ج ۳، ص ۱۹۰)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ہم سب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ زیادہ معاملہ فہم ہیں۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا تو انہوں نے فرمایا کہ: علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ سنت کا اب کوئی واقف نہیں رہا، سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ دو شخص شقی ترین ہیں۔ ایک احمر، جس نے سیدنا صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹیں اور دوسرا وہ شخص جو تیرے سر پر تلوار مار کر تیری داڑھی کو جسم سے جدا کرے گا
(طبقات ابن سعد، ج ۳، ص ۱۹۰)

:آپؓ کے قضایا و کلمات

سیدنا علیؓ جب بصرہ میں تشریف لے گئے تو ابن کوا اور قیس بن عبادہ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا کہ میرے بعد تم خلیفہ بنائے جاؤ گے، اس معاملہ میں آپ سے بڑھ کر اور کون ثقہ ہو سکتا ہے، ہم آپ ہی سے دریافت کرتے ہیں کہ یہ کیا بات ہے؟
یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ بالکل غلط ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے کوئی وعدہ فرمایا تھا، اگر فی الحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے کوئی ایسا وعدہ فرمایا ہوتا تو میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے منبر پر کیوں کھڑا ہونے دیتا اور ان کو اپنے ہاتھ سے قتل نہ کر دیتا، چاہے میرا ساتھ دینے والا ایک بھی نہ ہوتا

بات یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیماری نے طول کھینچا تو ایک روز مؤذن نے حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز کے واسطے بلایا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ”ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لے جاؤ وہ میری جگہ نماز پڑھائیں گے، لیکن ام المومنین (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا ) نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس ارادہ سے باز رکھنا چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو غصہ آیا اور فرمایا کہ تم سیدنا یوسف علیہ السلام کے زمانے کی سی عورتیں ہو، ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کو لے جاؤ۔
(صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب استخلاف الامام)

جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وفات پائی تو ہم نے اپنی جگہ غور کیا تو اس شخص کو اپنی دنیا کے واسطے بھی قبول کر لیا، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے دین کے واسطے انتخاب فرمایا تھا، کیوں کہ نماز اصل دین ہے اور آپ دین کے امیر اور دنیا کے قائم رکھنے والے تھے، پس ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مستحق سمجھ کر ان سے بیعت کر لی اور اسی لیے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا اور کسی نے کسی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہیں کیا، نہ کوئی متنفس ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیزار ہوا، لہذا میں نے بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حق ادا کیا ان کی اطاعت کی، ان کے لشکر میں شامل ہو کر ان کی طرف سے لڑا، وہ جو کچھ مجھے دیتے تھے لے لیتا تھا، جہاں کہیں مجھے لڑنے کا حکم دیتے تھے میں لڑتا تھا اور ان کے حکم سے حد شرع لگاتا تھا۔

جب ان کا انتقال ہوا تو وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنا گئے، میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ویسا ہی برتاؤ کیا اور ان کے ساتھ اسی طرح پیش آیا، جس طرح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آیا تھا، جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میری پیش قدمیٔ اسلام اور قرابت اور دوسری خصوصیات کو دیکھتے ہوئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ میری خلافت کا حکم دے جائیں گے، لیکن وہ ڈرے کہ کہیں ایسے شخص کا انتخاب نہ کر جاؤں جس کا انجام اچھا نہ ہو، چنانچہ انہوں نے اپنے نفس کے ساتھ اپنی اولاد کو بھی خلافت سے محروم کر دیا، اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بخشش و عطا کے اصول پر چلتے تو اپنے بیٹے سے بڑھ کر کس کو مستحق سمجھتے، غرض انتخاب اب قریش کے ہاتھ میں آیا، جن میں سے ایک میں بھی تھا۔

جب لوگ انتخاب کے لیے جمع ہوئے تو میں نے خیال کیا کہ وہ مجھ سے تجاوز نہ کریں گے، عبدالرحمن بن عوف نے ہم سے وعدے لیے کہ جو کوئی خلیفہ مقرر کیا جائے ہم اس کی اطاعت کریں گے، پھر انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا، اب جو میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ مجھ سے جو کچھ وعدہ لیا گیا تھا وہ غیر کی اطاعت کے واسطے لیا گیا تھا، لہذا میں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لی اور ان کے ساتھ میں نے وہی سلوک کیا اور ان سے اسی طرح پیش آیا جس طرح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آیا تھا
جب عثمان رضی اللہ عنہ کا بھی انتقال ہو گیا تو میں نے خیال کیا کہ وہ لوگ تو گزر گئے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارا امام بنایا تھا اور وہ بھی گزر گئے جن کے لیے مجھ سے وعدہ لیا گیا تھا تو میں بیعت لینے پر آمادہ ہو گیا۔ چنانچہ اہل حرمین (مکہ و مدینہ) نے اور کوفہ و بصرہ کے رہنے والوں نے مجھ سے بیعت کر لی، اب اس معاملۂ خلافت میں ایک ایسا شخص میرا مدمقابل ہے جس کی نہ قرابت میری مانند ہے، نہ علم، نہ سبقت اسلام حالانکہ کہ میں مستحق خلافت ہوں۔

ایک شخص نے سیدنا علی المرتضیٰؓ سے دریافت کیا کہ آپ نے ایک خطبہ میں کہا تھا کہ الٰہی ہم کو ویسی ہی صلاحیت عطا فرما، جیسی تو نے خلفاء راشدین کو فرمائی تھی تو آپ کے نزدیک وہ خلفاء راشدین کون تھے؟
یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور فرمانے لگے: وہ میرے دوست ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ ہیں، دونوں امام الہدیٰ اور شیخ الاسلام تھے، قریش نے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ان دونوں کی پیروی کی اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی انہوں نے نجات پائی، وہی اللہ تعالیٰ کے گروہ ہیں

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ دین کے معاملہ میں میرا مخالف بھی مجھ سے استفتاء کرتا ہے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھ بھیجا ہے کہ خنثیٰ مشکل کی میراث میں کیا کیا جائے؟* *میں نے اسے لکھ بھیجا ہے کہ اس کی پیشاب گاہ کی صورت سے میراث کا حکم جاری ہونا چاہیے، یعنی اگر اس کی پیشاب گاہ مردوں کی مانند ہو تو اس کا حکم مرد کا ہو گا اور اگر عورت کی طرح ہو تو عورت کی طرح کا

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جھوٹ سے سخت نفرت تھی

ایک مرتبہ آپ کچھ فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے آپ کو جھٹلایا، آپ نے بد دعا کی، وہ ابھی مجلس سے اٹھنے بھی نہ پایا تھا کہ اس کی آنکھیں جاتی رہیں

ایک مرتبہ دو آدمی کھانا کھانے بیٹھے، ایک کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اور دوسرے کے پاس تین۔ اتنے میں ایک اور آدمی آ گیا، ان دونوں نے اسے اپنے ساتھ کھانے کو بٹھا لیا، جب وہ تیسرا آدمی کھانا کھا کر چلنے لگا تو اس نے آٹھ درہم ان دونوں کو دےکر کہا کہ جو کچھ میں نے کھایا ہے اس کے عوض میں سمجھو، اس کے جانے کے بعد ان دونوں میں درہموں کی تقسیم کے متعلق جھگڑا ہوا، پانچ روٹیوں والے نے دوسرے سے کہا کہ میں پانچ درہم لوں گا اور تجھ کو تین ملیں گے، کیونکہ تیری روٹیاں تین تھیں، تین روٹیوں والے نے کہا میں تو نصف سے کم پر ہرگز راضی نہ ہوں گا، یعنی چار درہم لے کر چھوڑوں گا۔

اس جھگڑے نے یہاں تک طول کھینچا کہ دونوں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے ان دونوں کا بیان سن کر تین روٹیوں والے سے کہا کہ تیری روٹیاں کم تھیں تین درہم تجھ کو زیادہ مل رہے ہیں، بہتر ہے کہ تو رضا مند ہو جا، اس نے کہا کہ جب تک میری حق رسی نہ ہو گی میں کیسے راضی ہو سکتا ہوں؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر تیرے حصے میں صرف ایک درہم آئے گا اور تیرے ساتھی کے حصے میں سات درہم آئیں گے، یہ سن کر اس کو بہت ہی تعجب ہوا اور اس نے کہا کہ آپ بھی عجیب قسم کا انصاف کر رہے ہیں، ذرا مجھ کو سمجھا دیجئے کہ میرے حصے میں ایک اور اس کے حصے میں سات کس طرح آتے ہیں؟
،سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا
اچھا سنو! کل آٹھ روٹیاں تھیں اور تم تین آدمی تھے
چونکہ یہ مساوی طور پر تقسیم نہیں ہو سکتیں، لہذا ہر ایک روٹی کے تین ٹکڑے قرار دے کر کل چوبیس ٹکڑے سمجھو، یہ تو معلوم نہیں ہو سکتا کہ کس نے کم کھایا اور کس نے زیادہ، لہذا یہی فرض کرنا پڑے گا کہ تینوں نے برابر کھانا کھایا اور ہر ایک شخص نے آٹھ آٹھ ٹکڑے کھائے، تیری تین روٹیوں کے نو ٹکڑوں میں سے ایک اس تیسرے شخص نے کھایا اور آٹھ تیرے حصے میں آئے اور تیرے ساتھی کی پانچ روٹیوں کے پندرہ ٹکڑوں میں سے سات اس تیسرے شخص نے کھائے اور آٹھ تیرے ساتھی کے حصے میں آئے، چونکہ تیرا ایک ٹکڑا اور تیرے ساتھی کے سات ٹکڑے، کل آٹھ ٹکڑے کھا کر اس نے آٹھ درہم دئیے ہیں، لہذا ایک درہم تیرا ہے اور سات درہم تیرے ساتھی کے ہیں، یہ سن کر اس نے کہا کہ ہاں اب میں راضی ہوں

آپؓ کے حکیمانہ اقوالِ

آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: لوگو! قیامت میں آدمی کو اسی کا بدلہ ملے گا جو کچھ کر جائے گا اور ان ہی کے ساتھ اس کا حشر ہو گا جن سے اسے محبت ہو گی

قبول عمل میں اہتمام بلیغ کرو کیوں کہ کوئی عمل بغیر تقویٰ اور خلوص کے قبول نہیں کیا جائے گا۔
اے عالم قرآن عامل قرآن بھی بن! عالم وہی ہے جس نے پڑھ کر اس پر عمل کیا اور اپنے علم و عمل میں موافقت پیدا کی ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ عالموں کے علم و عمل میں سخت اختلاف ہوگا اور وہ لوگ حلقے باندھ باندھ کر بیٹھیں گے اور ایک دوسرے پر فخر و مباہات کریں گے، حتی کہ کوئی شخص ان کے پاس آ بیٹھے گا تو اس کو الگ بیٹھنے کا حکم دیں گے، یاد رکھو کہ اعمال حلقہ و مجلس سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ ذات الٰہی سے۔ حسن خلق آدمی کا رہبر، عقل اس کی مدد گار اور ادب انسان کی میراث ہے، وحشت غرور سے بھی بدتر چیز ہے

ایک شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے مسئلہ تقدیر سمجھا دیجئے
آپ نے فرمایا: اندھیرا راستہ ہے نہ پوچھ اس نے پھر وہی عرض کیا آپ نے فرمایا کہ: وہ بحرعمیق ہے، اس میں غوطہ مارنے کی کوشش نہ کر، اس نے پھر وہی عرض کیا، آپ نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کا بھید ہے، تجھ سے پوشیدہ رکھا گیا ہے، کیوں اس کی تفتیش کرتا ہے، اس نے پھر اصرار کیا تو آپ نے فرمایا کہ اچھا یہ بتا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ کو اپنی مرضی کے موافق بنایا ہے، یا تیری فرمائش کے موافق؟
اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی کے موافق بنایا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ بس پھر جیسے وہ چاہے تجھے استعمال کرے تجھے اس میں کیا چارہ ہے۔

ہر مصیبت کی ایک انتہا ہوتی ہے اور جب کسی پر مصیبت آتی ہے تو وہ اپنی انتہا تک پہنچ کر رہتی ہے، عاقل کو چاہیے کہ جب مصیبت میں گرفتار ہو تو بھٹکتا نہ پھرے اور اس کے دفع کی تدبیریں نہ کرے، کیوں کہ اس سے اور زحمت ہوتی ہے مانگنے پر کسی کو کچھ دینا تو بخشش ہے اور بغیر مانگے دینا سخاوت

عبادت میں سستی کا پیدا ہونا، معیشت میں تنگی کا واقع ہونا، لذتوں میں کمی کا آ جانا گناہ کی سزا ہے۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو آپ نے آخری وقت نصیحت کی کہ سب سے بڑی تونگری عقل ہے اور سب سے زیادہ مفلسی حماقت ہے، سخت ترین وحشت غرور ہے اور سب سے بڑا کرم حسن خلق ہے، احمق کی صحبت سے پرہیز کرو، وہ چاہتا تو ہے کہ تمہیں نفع پہنچائے، لیکن نقصان پہنچاتا ہے، جھوٹے سے پرہیز کرو، کیوں کہ وہ قریب ترین کو بعید اور بعید ترین کو قریب کر دیتا ہے، بخیل سے بھی پرہیز کرو، کیوں کہ وہ تم سے وہ چیز چھڑوا دے گا جس کی تم کو سخت احتیاج ہے، فاجر کے پاس بھی نہ بیٹھو وہ تمہیں کوڑیوں کے بدلے بیچ ڈالے گا

پانچ باتیں یاد رکھو

①: کسی شخص کو سوائے گناہ کے اور کسی چیز سے نہ ڈرانا چاہیے
②: سوائے اللّٰہ تعالیٰ کے اور کسی آدمی سے امید نہ رکھنی چاہیے
③: جو شخص کوئی چیز نہ جانتا ہو اس کے سیکھنے میں کبھی شرم نہ کرے
④: کسی عالم سے جب کوئی ایسی بات پوچھی جائے جس کو وہ نہ جانتا ہو تو اسے بلا دریغ کہہ دینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے
⑤: صبر اور ایمان میں وہی نسبت ہے جو سر اور جسم میں جب صبر جاتا رہے تو سمجھو کہ ایمان جاتا رہا، جب سر ہی جاتا رہا تو جسم کیسے بچ سکتا ہے

فقیہ اس شخص کو کہنا چاہیے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے نا امید نہ کرے اور گناہوں کی رخصت نہ دے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف نہ کر دے، قرآن شریف سے اعراض کرا کر کسی اورچیز کی طرف مائل نہ کر دے

انار کو اس پتلی سی جھلی کے ساتھ کھانا چاہیے جو دانوں کے درمیان ہوتی ہے کیوں کہ وہ معدہ میں جا کر غذا کو پکا دیتی ہے۔ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ مومن ادنی غلام سے بھی زیادہ ذلیل ہوگا

خلافت علوی کے اہم واقعات

بیعت خلافت

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ایک ہفتہ بعد ۲۵ ذی الحجہ ۳۵ ھ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مدینہ منورہ میں بیعت عام ہوئی، شہادت عثمانی رضی اللہ عنہ کے بعد مدینہ منورہ میں قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ ہی کا زور تھا، انہوں نے اول اہل مدینہ کو ڈرا دھمکا کر انتخاب خلیفہ کے کام پر آمادہ کیا، بلوائیوں میں زیادہ تعداد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جانب مائل تھی، اہل مدینہ کی بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کثرت آراء تھی، لوگ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کے لیے عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ تو مجھ کو خلیفہ انتخاب کرتے ہو، لیکن تم لوگوں کے انتخاب کرنے سے کیا ہوتا ہے جب تک کہ اصحاب بدر مجھ کو خلیفہ تسلیم نہ کریں۔ یہ سن کر لوگ اصحاب بدر کی طرف گئے اور جہاں تک ممکن ہوا ان کو جمع کر کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لائے، سب سے پہلے مالک اشتر نے بیعت کی، اس کے بعد اور لوگوں نے ہاتھ بڑھائے

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کی نیت بھی معلوم ہونی چاہیے، چنانچہ مالک اشتر، طلحہ رضی اللہ عنہ کی جانب اور حکیم بن جبلہ، زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ ہوئے اور دونوں حضرات کو زبردستی پکڑ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے لائے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان دونوں حضرات سے فرمایا کہ آپ میں سے جو شخص خلافت کا خواہش مند ہو، میں اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار ہوں اور ان دونوں نے انکار کیا، پھر ان دونوں سے کہا گیا کہ اگر تم خود خلیفہ بننا نہیں چاہتے ہو تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرو، یہ دونوں کچھ سوچنے لگے تو مالک اشتر نے تلوار کھینچ کر سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ابھی آپ کا قصہ پاک کر دیا جائے گا۔ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے یہ حالات دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں اسی شرط پر بیعت کرتا ہوں کہ آپ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مطابق حکم دیں اور حدود شرعی جاری کریں۔ (یعنی قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لیں)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان باتوں کا اقرار کیا، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیعت کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا جو کٹا ہوا تھا۔ (جنگ احد میں ان کا ہاتھ زخموں کی کثرت سے بیکار ہو گیا تھا) بعض لوگوں نے اس مجلس میں سب سے پہلے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے کٹے ہوئے ہاتھ کا بیعت کے لیے بڑھتے ہوئے دیکھ کر بدفالی سمجھی

اس کے بعد سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آیا اور انہوں نے بھی سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ والی شرطیں پیش کر کے بیعت کی، سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے بھی بیعت کے لیے کہا گیا، انہوں نے اپنا دروازہ بند کر لیا اور کہا کہ جب سب لوگ بیعت کر لیں گے اس کے بعد میں بیعت کروں گا اور اس بات کا بھی وعدہ کیا کہ میری طرف سے کسی قسم کا اندیشہ نہ کرو ان کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے حال پر چھوڑ دیا

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی طرح بیعت میں تامل کیا، ان سے لوگوں نے ضامن طلب کیا، مالک اشتر نے تلوار نکال کر کہا کہ ان کو قتل کئے دیتا ہوں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مالک اشتر کو روکا اور کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ضامن میں ہوں۔ اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عمرے کے ارادے سے مکہ کی جانب روانہ ہوگئے، س کا حال سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا اور لوگوں نے ان سے کہا کہ وہ آپ کے خلاف ارادہ لے کر روانہ ہوئے ہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فوراً ان کی گرفتاری کے لیے لوگوں کو روانہ کرنا چاہا، اتنے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنھا جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں آئیں اور انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یقین دلایا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ آپ کے خلاف کوئی حرکت نہ کریں گے اور وہ صرف عمرہ ادا کرنے کے لیے روانہ ہوئے ہیں، تب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اطمینان ہوا

ان کے علاوہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ، حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ، کعب بن مالک رضی اللہ عنہ، ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ وغیرہ* *جلیل القدر حضرات نے بھی بیعت نہیں کی، بہت سے اشخاص بالخصوص بنی امیہ بیعت میں شامل نہ ہونے کے لیے مدینہ سے شام کی طرف فوراً روانہ ہو گئے، بعض حضرات اسی غرض سے مکہ کی طرف چل دئیے، جو صحابی مدینہ منورہ میں موجود تھے اور پھر بھی انہوں نے بیعت نہیں کی ان کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے طلب کر کے وجہ دریافت کی تو انہوں نے صاف جواب دیا کہ ابھی مسلمانوں میں خوں ریزی کے اسباب موجود ہیں اور فتنہ کا کلی انسداد نہیں ہوا، اس لیے ابھی ہم رکے ہوئے ہیں اور بالکل غیر جانب دار رہنا چاہتے ہیں۔

اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مروان بن الحکم کو طلب کیا، مگر اس کا کہیں پتہ نہ چلا سیدہ نائلہ زوجہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے قاتلوں کا نام دریافت کیا تو انہوں نے دو شخصوں کا صرف حلیہ بتایا اور نام نہ بتا سکیں، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی نسبت ان سے پوچھا کہ یہ بھی قاتلوں میں ہیں تو انہوں نے کہا کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قتل سے پہلے یہ دروازے سے باہر واپس جا چکے تھے۔ بنی امیہ کے بعض افراد زوجہ عثمان رضی اللہ عنہ سیدہ نائلہ رضی اللہ عنہا کی کٹی ہوئی انگلیاں اور خون آلود کرتا لے کر ملک شام کی طرف سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے

خلافت کا دوسرا دن

سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ دونوں اگلے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم نے تو بیعت اسی شرط پر کی ہے کہ آپ قاتلین عثمان سے قصاص لیں، اگر آپ نے قصاص لینے میں تامل کیا تو ہماری بیعت فسخ ہو جائے گی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے ضرور قصاص لوں گا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں پورا پورا انصاف کروں گا، لیکن ابھی تک بلوائیوں کا زور ہے اور ادھر امرِ خلافت پورے طور پر مستحکم نہیں ہوا، میں اطمینان و سہولت حاصل ہونے پر اس طرف توجہ کروں گا، فی الحال اس معاملہ میں کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دونوں صاحب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گفتگو سن کر اور اٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے، لیکن لوگوں میں اس کے متعلق سرگوشیاں اور چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔

قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ اور بلوائیوں کو تو یہ فکر ہوئی کہ اگر قصاص لیا گیا تو پھر ہماری خیر نہیں ہے اور ان لوگوں کو جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو مظلوم سمجھتے اور بلوائیوں سے سخت نفرت رکھتے تھے ان کو اس بات کا یقین ہوا کہ یہ لوگ جنہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ظالمانہ طور پر شہید کیا ہے، اپنے کیفر کردار کو نہ پہنچیں گے اور مزے سے فاتحانہ گل چھڑے اڑاتے ہوئے پھریں گے، اس قسم کے خیالات کا لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جانا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لیے مضر تھا، مگر ان کے پاس اس کے لیے کوئی چارہ کار بھی نہ تھا اور وہ حالات موجودہ میں جب کہ پہلے ہی نظام حکومت درہم برہم ہو کر دارالخلافہ کی ہوا بگڑ چکی تھی کچھ کر بھی نہ سکتے تھے

بلوائیوں کی سرتابی

بیعت خلافت کے تیسرے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ کوفہ و بصرہ و مصر وغیرہ ممالک اور دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے تمام اعراب واپس چلے جائیں، اس حکم کو سن کر عبداللہ بن سبا اور اس کی جماعت کے لوگوں نے واپس جانے اور مدینہ کو خالی کرنے سے انکار کیا اور اکثر بلوائیوں نے ان کا اس انکار میں ساتھ دیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی یہ حقیقتاً سب سے پہلی بدفالی تھی کہ ان کے حکم کو ان ہی لوگوں نے ماننے سے انکار کیا جو بظاہر اپنے آپ کو ان کا بڑا فدائی اور شیدائی ظاہر کرتے تھے

اس کے بعد سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ ہم کو بصرہ وکوفہ کی طرف بھیج دیجئے، وہاں کے لوگوں کو چوں کہ ہم سے ایک گونہ عقیدت ہے، لہذا ہم وہاں جا کر لوگوں کے منتشر خیالات کو یکسو کر دیں گے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو شبہ ہوا اور انہوں نے ان دونوں صاحبوں کو مدینہ سے باہر جانے کی ممانعت کر دی۔

مغیرہ رضی اللہ عنہ و ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مفید مشورہ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے تیسرے چوتھے ہی دن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ کے تمام عاملوں اور والیوں کی معزولی کا فرمان لکھوایا اور ان والیوں اور عاملوں کی جگہ دوسرے لوگوں کا تقرر فرمایا یہ سن کر سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ جو بڑے مدبر و دور اندیش اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ نے طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ اور دوسرے قریش کو جو مدینہ سے باہر جانے کی ممانعت کر دی ہے اور ان کو روک لیا ہے اس کا اثر یہ ہو گا کہ تمام قریش آپ کی خلافت کو اپنے لیے باعث تکلیف سمجھیں گے اور ان کو آپ کے ساتھ ہمدردی نہ رہے گی، دوسرے آپ نے عہد عثمانی کے عاملوں کو معزول کرنے میں عجلت سے کام لیا ہے، مناسب یہ ہے کہ آپ اب بھی اپنے روانہ کئے ہوئے عاملوں کو واپس بلا لیں اور ان ہی عاملوں کو اپنے اپنے علاقے میں مامور رہنے دیں اور ان سے صرف بیعت و اطاعت کا مطالبہ کریں۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مغیرہ رضی اللہ عنہ کی اس گفتگو کو سن کر اس کے تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا، اگلے دن جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے برادرعم زاد عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھے، سیدنا مغیرہ آئے اور عندالتذکرہ انہوں نے اپنی پہلی رائے کے خلاف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کو عمال عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے معزول کرنے میں بہت عجلت سے کام لینا چاہیے، جب مغیرہ رضی اللہ عنہ اس مجلس سے اٹھ کر چلے گئے تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کل آپ کو نصحیت کی تھی اور آج دھوکہ دیا ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کی رائے کیا ہے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مناسب تو یہ تھا کہ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت آپ مکہ میں چلے جاتے، لیکن اب مناسب یہی ہے کہ عمال عثمانی رضی اللہ عنہ کو بحال رکھیں یہاں تک کہ آپ کی خلافت کو استقلال و استحکام حاصل ہو جائے اور اگر آپ نے عمال عثمانی کے تبدیل و معزول کرنے میں جلدی کی تو بنی امیہ لوگوں کو دھوکہ دیں گے کہ ہم قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص طلب کرتے ہیں جیسا کہ اہل مدینہ بھی کہہ رہے ہیں، اسی طرح لوگ ان کے شریک ہو جائیں گے اور آپ کی خلافت کا شیرازہ درہم برہم اور کمزور ہو جائے گا۔

یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو صرف تلوار کے ذریعہ سیدھا کروں گا، کوئی رعایت روانہ رکھوں گا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ ایک بہادر شخص ضرور ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’الحرب خدعتہ‘‘ ’’جنگ ایک چال اور دھوکہ ہے۔‘
(صحیح بخاری کتاب الجھاد)
اگر آپ میرے کہنے پر عمل کریں تو میں آپ کو ایسی تدبیر بتاؤں کہ بنی امیہ سوچتے ہی رہ جائیں اور ان سے کچھ بن نہ پڑے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ میں تو تمہاری سی خصلتیں ہیں نہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی سی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے نزدیک مناسب یہ ہے کہ تم اپنا مال و اسباب لے کر ینبوع چلے جاؤ اور وہاں دروازہ بند کر کے بیٹھ جاؤ، عرب لوگ خوب سرگرداں و پریشان ہوں گے، لیکن آپ کے سوا کسی کو لائق امارت نہ پائیں گے، اگر تم ان لوگوں یعنی قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ اٹھو گے تو لوگ تم پر خون عثمان کا الزام لگائیں گے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہاری بات پر عمل کرنا مناسب نہیں سمجھتا، بلکہ تم کو میری بات پر عمل کرنا چاہیے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا بے شک میرے لیے یہی مناسب ہے کہ آپ کے احکام کی تعمیل کروں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم کو بجائے معاویہ رضی اللہ عنہ کے شام کا والی بنا کر بھیجنا چاہتا ہوں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک جدی بھائی ہے اور مجھ کو آپ کے ساتھ تعلق قرابت ہے، وہ مجھ کو شام کے ملک میں داخل ہوتے ہی قتل کر ڈالے گا، یا قید کر دے گا، مناسب یہی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے خط و کتابت کی جائے اور کسی طرح بیعت لے لی جائے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس بات کے ماننے سے انکار فرما دیا۔

مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے مشورے پر عمل نہیں کیا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مشورے کو بھی رد کر دیا تو وہ ناراض و بد دل ہو کر مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی طرف چلے گئے

عُمال کا عزل و نصب

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ پر عثمان بن حنیف کو، کوفہ پر عمارہ بن شہاب کو، یمن پر عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو، مصر پر قیس بن سعد کو، شام پر سہل بن حنیف کو عامل و والی مقرر کر کے روانہ کیا۔

عثمان بن حنیف جب بصرہ پہنچے تو بعض لوگوں نے ان کو اپنا عامل و حاکم تسلیم کر کے ان کی اطاعت قبول کر لی، مگر بعض نے کہا کہ ہم فی الحال سکوت اختیار کرتے ہیں، آئندہ جو طرز عمل اہل مدینہ کا ہو گا ہم اس کی اتباع کریں گے۔ کوفہ کی طرف عمارہ بن شہاب روانہ کئے گئے تھے، ابھی وہ راستے ہی میں تھے کہ طلیحہ بن خویلد سے ملاقات ہوئی، طلیحہ نے عمارہ سے کہا کہ مناسب یہی ہے کہ تم واپس چلے جاؤ، اہل کوفہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو کسی دوسرے عامل سے تبدیل کرنا نہیں چاہتے اور اگر تم میرا کہنا نہیں مانتے ہو تو میں تمہاری گردن ابھی اڑائے دیتا ہوں، یہ سن کر عمارہ خاموشی کے ساتھ مدینہ کی طرف واپس چلے آئے۔

عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے یمن میں داخل ہونے سے پیشتر ہی وہاں کے سابق عامل یعلی بن منبہ مکہ کی جانب روانہ ہو چکے تھے، عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے باطمینان یمن کی حکومت سنبھالی۔ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ مصر پہنچے تو وہاں کے بعض شخصوں نے ان کی اطاعت قبول کی اور بعض نے سکوت اختیار کیا، بعض نے یہ کہا کہ جب تک ہمارے بھائی مدینہ سے مصر میں واپس نہ آ جائیں گے، اس وقت تک ہم کچھ کرنا نہیں چاہتے

سہل بن حنیف جو امیر شام ہو کر جا رہے تھے، تبوک پہنچ کر چند سواروں سے ملے، ان سواروں نے دریافت کیا کہ تم کون ہو؟
سہل نے جواب دیا کہ امیر شام مقرر ہو کر جا رہا ہوں، ان سواروں نے کہا کہ تم کو عثمان رضی اللہ عنہ کے سوا کسی اور نے امیر مقرر کر کے روانہ کیا ہے تو تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ فوراً واپس چلے جاؤ، یہ سن کر سہل مدینہ کی طرف واپس چلے آئے، یہ جب مدینہ میں داخل ہوئے ہیں تو ان کے ساتھ ہی بعض دوسرے واپس شدہ عمال بھی مدینہ میں پہنچے۔

جریر بن عبداللہ البجلی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت ہمدان کے عامل تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو لکھا کہ اپنے صوبہ سے بیعت لے کر ہمارے پاس چلے آؤ، وہ اس حکم کی تعمیل میں مدینہ چلے آئے

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایتِ حق

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے معبد اسلمی کے ہاتھ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس ایک خط روانہ کیا جس کے جواب میں ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ اہل کوفہ نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے، اکثر نے یہ بیعت برضاو رغبت کی ہے اور بعض نے بہ اکراہ، اس خط کے آجانے سے گونہ اطمینان کوفہ کی طرف سے حاصل ہوا، جب ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے نام کوفہ کی جانب خط روانہ کیا گیا تھا، اسی وقت دوسرا خط جریر بن عبداللہ اور سبرہ جہنی کے ہاتھ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام دمشق کی جانب بھیجا گیا، وہاں سے تین مہینے تک کوئی جواب نہیں آیا۔

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کئی مہینے تک قاصد کو ٹھہرائے رکھا، پھر ایک خط سر بمہر اپنے قاصد قبیصہ عبسی کو دے کر جریر بن عبداللہ کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ کیا، اس خط کے لفافہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا پتہ صاف لکھا ہوا تھا، یعنی” من معاویہ رضی اللہ عنہ الی علی رضی اللہ عنہ ” یہ خط لے کر دونوں قاصد ماہ ربیع الاول ۳۶ ھ کے آخری ایام میں مدینہ پہنچے۔ قاصد نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر خط پیش کیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لفافہ کو کھولا تو اس کے اندر سے کوئی خط نہ نکلا، آپ نے غصہ سے قاصد کی طرف دیکھا، قاصد نے کہا کہ میں قاصد ہوں مجھ کو جان کی امان ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں تجھ کو امان ہے، اس نے کہا کہ ملک شام میں کوئی آپ کی بیعت نہ کرے گا، میں نے دیکھا ہے کہ ساٹھ ہزار شیوخ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خون آلودہ قمیص پر رو رہے تھے، وہ قمیص لوگوں کو مشتعل کرنے کی غرض سے جامع دمشق کے منبر پر رکھی ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا وہ لوگ مجھ سے خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ طلب کرتے ہیں حالانکہ خون عثمان رضی اللہ عنہ سے بری ہوں، اللہ تعالیٰ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے پوچھے! یہ کہہ کر قاصد کو معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف واپس کر دیا۔

سبائیوں کی گمراہی

بلوائیوں اور سبائیوں نے اس قاصد کو گالیاں دے کر مارنا چاہا لیکن اہل مدینہ کے بعض اشخاص نے اس کو آزار پہنچنے سے بچایا اور وہ مدینہ سے روانہ ہو کر دمشق پہنچا. جریر بن عبداللہ کی نسبت بھی بلوائیوں کے سرداروں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ساز باز کرنے کا الزام لگایا، کیونکہ وہ دیر تک شام میں رہے تھے اور فوراً واپس نہ آ سکے تھے، جریر اس الزام کو سن کر کبیدہ خاطر ہوئے اور مدینہ سے قرقیسیا کی طرف چلے گئے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر لگی تو انہوں نے قرقیسیا میں .اپنے قاصد بھیج کر باصرار جریر رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلوایا

ملک شام پر حملہ کی تیاری

مدینہ والوں کو جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قاصدوں کے آنے جانے اور تعلقات کے منقطع ہونے کا حال معلوم ہوا تو اب ان کو فکر ہوئی کہ دیکھئے آپس میں کہیں اور عظیم الشان کشت و خون نہ ہو، چنانچہ اہل مدینہ نے زیاد بن حنظلہ تمیمی کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بھیجا کہ ان کا عندیہ جنگ کے متعلق معلوم کر کے ہم کو مطلع کرے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے زیاد سے مخاطب ہو کر کہا کہ تیار ہو جاؤ! اس نے کہا کہ کس کام کے لیے؟
آپ نے فرمایا ملک شام پر حملہ آور ہونے کے لیے، زیاد نے عرض کیا کہ نرمی اور مہربانی سے کام لینا تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں، باغیوں کی سزا دہی ناگزیر ہے

اہل مدینہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ضرور ملک شام پر چڑھائی کرنے والے ہیں تو سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ دونوں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم عمرہ کرنے مکہ معظمہ کو جاتے ہیں ہم کو مدینہ سے جانے کی اجازت دی جائے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان دونوں حضرات کا مدینہ میں زیادہ روکنا اورنظر بند رکھنا مناسب نہ سمجھ کر اجازت دے دی اور مدینہ میں اعلان کرا دیا کہ ملک شام پر فوج کشی کرنے کے لیے لوگ تیار ہو جائیں اور اپنا اپنا سامان درست کر لیں، پھر ایک خط عثمان بن حنیف کے پاس بصرہ کی جانب، ایک ابوموسیٰ کے پاس کوفہ کی جانب اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس مصر کی جانب روانہ کیا کہ جہاں تک ممکن ہو، اپنی طاقت اور اثر کو کام میں لا کر لشکر فراہم کرو اور جس وقت ہم طلب کریں فوراً ہمارے پاس بھیج دو

مسلمانوں کے خلاف فوج کشی

جب اکثر اہل مدینہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حکم موافق تیار ہو گئے تو آپ نے قاسم بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنی جگہ مدینہ کا حاکم و عامل تجویز کر کے اپنے بیٹے محمد بن حنیفہ رضی اللہ عنہ کو لشکر کا جھنڈا عطا کیا، میمنہ کا افسر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا، میسرہ پر عمروبن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کو مامور کیا اور ابولیلیٰ ابن الجراح برادر ابوعبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ کو مقدمۃ الجیش کی سرداری سپرد فرمائی اور اس احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھا کہ بلوائیوں میں سے جن کی اکثر تعداد ابھی تک مدینہ میں موجود تھی، کسی کو فوج کے کسی حصے کا سردار نہیں بنایا، ابھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ فوج کے حصوں کی سرداریاں ہی تقسیم فرما رہے تھے، لیکن ابھی فوج مرتب ہو کر مدینہ سے روانہ نہیں ہوئی تھی کہ مکہ کی جانب سے خبر پہنچی کہ وہاں آپ کی مخالفت میں تیاریاں ہو رہی ہیں، یہ خبر سن کر آپ نے سردست ملک شام کا ارادہ ملتوی کر دیا

مکہ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی تیاریاں

جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے سیدنا ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بعد ادائے حج مدینہ کو واپس آ رہی تھیں کہ راستے میں مقام سرف میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حال سن کر مکہ کو واپس لوٹ گئیں، اس خبر کے ساتھ ہی آپ کو یہ خبر بھی معلوم ہو گئی تھی کہ سیدنا علی کے ہاتھ پر لوگوں نے مدینہ میں بیعت کر لی ہے، جب آپ مکہ میں واپس تشریف لے آئیں تو آپ کی اس طرح واپسی کا حال سن کر لوگ آپ کی سواری کے اردگرد جمع ہو گئے، آپ نے اس مجمع کے رو برو فرمایا کہ

واللہ عثمان رضی اللہ عنہ مظلوم مارے گئے، میں ان کے خون کا بدلہ لوں گی، افسوس ہے کہ اطراف و جوانب کے شہروں اور بیابانوں سے آئے ہوئے لوگوں اور مدینہ کے غلاموں نے مل کر بلوہ کیا اور عثمان رضی اللہ عنہ کی مخالفت اس لیے کی کہ اس نے نو عمروں کو عامل مقرر کیا تھا، حالانکہ اس کے پیش روؤں نے بھی ایسا کیا تھا، یہ بلوائی جب اپنے دعوے پر دلیل نہ لا سکے تو عثمان رضی اللہ عنہ کی عداوت پر کمربستہ اور بدعہدی پر آمادہ ہو گئے، جس خون کو اللہ تعالی نے حرام کیا تھا اس کو بہایا اور جس شہر کو خدائے تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا دارالہجرت بنایا تھا وہاں خوں ریزی کی اور جس مہینے میں خوں ریزی ممنوع تھی اس مہینے میں خوں ریزی کی اور جس مال کا لینا جائز نہ تھا اس کو لوٹ لیا، واللہ عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک انگلی بلوائیوں جیسے تمام جہاں سے افضل ہے، جس وجہ سے یہ لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے دشمن ہوئے تھے، عثمان رضی اللہ عنہ اس سے پاک و صاف تھا

مکہ معظمہ میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی جانب سے عبداللہ بن عامر حضرمی عامل تھے، انہوں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ تقریر سن کر کہا کہ سب سے پہلے خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے والا میں ہوں۔ یہ سنتے ہی تمام بنو امیہ جو بعد شہادت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ابھی مکہ میں پہنچے تھے بول اٹھے، ہم سب آپ کے شریک ہیں، ان ہی میں سعید بن العاص اور ولید بن عقبہ وغیرہ بھی شامل تھے، عبداللہ بن عامر بصرہ سے معزول ہو کر مکہ ہی کی جانب آئے، یعلیٰ بن منبہ یمن سے آئے اور چھ سو اونٹ اور چھ لاکھ دینار لے کر آئے اوریہ تجویزیں ہونے لگیں کہ خون عثمان رضی اللہ عنہ کا معاوضہ لیا جائے

سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ جب مدینہ سے روانہ ہو کر مکہ میں پہنچے تو سیدنا ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان دونوں کو بلوا کر دریافت کیا کہ تم لوگ کس طرح تشریف لائے ہو؟
دونوں صاحبوں نے جواب دیا کہ مدینہ کے نیک اور شریف لوگوں پر اعراب اور بلوائی مستولی ہو گئے ہیں، ان ہی کے خوف سے بھاگ کر یہاں آئے ہیں، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ پھر تو تم کو ہمارے ساتھ ان کی طرف خروج کرنا چاہیے، دونوں صاحبوں نے آمادگی و رضامندی کا اظہار کیا

اہل مکہ سب سیدنا ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے تابع فرمان تھے، عبداللہ ابن عامر سابق گورنر بصرہ، یعلیٰ بن منبہ گورنر یمن، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ یہ چار شخص ام المومنین رضی اللہ عنہا کے لشکر میں سردار اور صاحب حل و عقد سمجھے جاتے تھے۔
اول کسی نے یہ مشورہ دیا کہ مکہ سے روانہ ہو کر اور مدینہ سے کترا کر ہم کو شام کے ملک میں جانا چاہیے، اس پر عبداللہ بن عامر نے کہا کہ ملک شام میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ موجود ہیں اور وہ ملک شام کو سنبھالے رکھنے کی کافی طاقت و اہلیت رکھتے ہیں، مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب یہاں سے بصرہ چلیں، وہاں میرے دوستوں اور ہمدردوں کی بھی ایک بھاری تعداد ضرور موجود ہے، میں وہاں اب تک عاملانہ حیثیت سے رہا ہوں، نیز اہل بصرہ کا رجحان طبع سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کی جانب زیادہ ہے، لہذا بصرہ میں ہم کو یقینا کامیابی حاصل ہو گی اور اس طرح ایک زبردست صوبہ اور بہت بڑی جمعیت ہمارے ہاتھ آ جائے گی، کسی شخص نے کہا کہ ہم کو مکہ ہی میں رہ کر کیوں نہ مقابلہ کرنا چاہیے، اس کے جواب میں عبداللہ ابن عامر نے کہا کہ مکہ والوں کو ضرور ہم خیال بنا چکے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ ہیں لیکن ان لوگوں میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ اگر وہ لوگ جو مدینہ میں موجود ہیں حملہ آور ہوں تو ان کا حملہ سنبھال سکیں، لیکن یہاں سے اپنی طاقت اور جمعیت کو لے کر ہم بصرہ کی طرف گئے تو جس طرح اہل مکہ ہمارے ساتھ ہو گئے اسی طرح اہل بصرہ بھی یقینا ہمارے ساتھ ہو جائیں گے اور پھر ہماری طاقت اس قدر ہو گی کہ ہم ہر ایک حملہ کو سنبھال سکیں گے اور خون عثمان رضی اللہ عنہ کے مطالبہ میں طاقت پیدا کر سکیں گے

غرض اس رائے کو سب نے پسند کیا اور بصرہ کی تیاریاں ہونے لگیں، اس کے بعد سب کی یہ رائے ہوئی کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مکہ میں تشریف لائے ہوئے ہیں ان کو بھی شریک کرو، بلکہ ان ہی کو اپنا سردار بناؤ، چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بلوائے گئے اور ان کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر خروج کریں، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہم مدینہ والوں کے ساتھ ہیں جو وہ کریں گے، یہ جواب سن کر پھر ان سے کسی نے اصرار نہیں کیا

دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنھن بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے ساتھ مکہ میں تشریف لائی ہوئی تھیں، انہوں نے جب یہ سنا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بصرہ کا قصد رکھتی ہیں تو انہوں نے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا ساتھ دینے اور ان کے ہمراہ رہنے کا ارادہ کیا، انہیں میں سیدنا حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنھا بھی تھیں، ان کو ان کے بھائی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بصرہ کی طرف جانے سے منع کیا اور وہ رک گئیں، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بھی مکہ پہنچ گئے تھے، وہ بھی اس لشکر کے ہمراہ ہو لیے

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی مکہ سے بصرہ کی جانب روانگی

عبداللہ بن عامر اور یعلیٰ بن منبہ بصرہ اور یمن سے کافی روپیہ اور سامان لے کر مکہ میں پہنچے تھے، لہذا ان ہی دونوں نے لشکر ام المومنین رضی اللہ عنہا کی سامان سفر کی تیاری و فراہمی میں حصہ لیا، ان دونوں نے روانگی سے پہلے تمام مکہ میں منادی کرا دی تھی کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ بصرہ کی طرف جا رہے ہیں، جو شخص اسلام کا ہمدرد اور خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینا چاہتا ہو وہ آئے اور شریک لشکر ہو جائے، اس کو سواری وغیرہ دی جائے گی۔ غرض اس طرح مکہ معظمہ سے ڈیڑھ ہزار آدمیوں کا لشکر روانہ ہوا، عین روانگی کے وقت مروان بن الحکم اور سعید بن العاص بھی مکہ میں پہنچے اور شریک لشکر ہوئے، مکہ سے تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ اطراف و جوانب سے جوق در جوق لوگ آ آ کر شریک ہونا شروع ہوئے اور بہت جلد اس لشکر کی تعداد تین ہزار ہو گئی
ام فضل بنت الحارث مادر عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی اتفاقاً شریک لشکر تھیں، انہوں نے قبیلہ جہنیہ کے ایک شخص ظفر نامی کو اجرت دے کر سیدنا علی کی جانب روانہ کیا اور ایک خط دیا، جس میں اس لشکر اور اس کی روانگی کے تمام حالات لکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو آگاہ کیا گیا تھا، باقی امہات المومنین جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہمراہ آئی تھیں، مقام ذات عرق تک تو ہمراہ آئیں، پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رو رو کر رخصت ہوئیں اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئیں۔ بعض اختلافات کی وجہ سے راستہ ہی سے سعید بن العاص اور مغیرہ بن شعبہ اور کچھ اور لوگ واپس ہو گئے

امیر بصرہ کی مخالفت اور صف آرائی

یہ لشکر جب بصرہ کے قریب پہنچا تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اول عبداللہ ابن عامر کو اہل بصرہ کی طرف بھیجا اور بصرہ کے عمائدین کے نام خطوط بھی روانہ کئے اور خود جواب کے انتظار میں ٹھہر گئیں، بصرہ کے موجودہ گورنر عثمان بن حنیف کو جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری کا حال معلوم ہوا تو اس نے بصرہ کے چند با اثر لوگوں کو بلا کر بطور ایلچی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لشکر کی جانب بھیجا، ان لوگوں نے سیدنا ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر تشریف لانے کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ عام بلوائیوں اور قبائل کے فتنہ پرداز لوگوں نے یہ ہنگامہ برپا کیا ہے اور مسلمانوں کی جمعیت کو نقصان پہنچا کر اسلام کو نقصان پہنچانا چاہا ہے، میں مسلمانوں کی یہ جماعت لے کر اس لیے نکلی ہوں کہ ان کو اصلی واقعات سے مطلع کروں اور ان کی اصلاح کروں، اس خروج سے میرا مقصد اصلاح بین المسلمین کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
وہاں سے اٹھ کر یہ لوگ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آئے اور آنے کا سبب دریافت کیا، انہوں نے جواب دیا کہ ہم عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کے لیے نکلے ہیں، پھر ان بصرہ والوں نے دریافت کیا کہ کیا تم دونوں نے سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ہم نے بیعت کی تھی، مگر اس شرط پر کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لیا جائے، دوسرے یہ کہ جب ہم سے بیعت لی گئی تھی تو تلوار ہمارے سر پر تھی۔

یہاں سے اٹھ کر یہ لوگ بصرہ میں عثمان بن حنیف کے پاس واپس گئے اور جو کچھ سن کر گئے تھے سنایا۔ عثمان بن حنیف نے سن کر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا، پھر ان لوگوں سے یعنی عمائدین بصرہ سے کہا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ خاموشی اختیار کرو، عثمان بن حنیف نے کہا کہ میں ان کو روکوں گا جب تک سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہاں تشریف نہ لے آئیں، عمائدین بصرہ اپنے اپنے گھروں میں آ کر بیٹھ رہے۔

عثمان نے تمام بصرہ والوں کو لڑائی کے لیے تیار کرنے اور مسجد میں جمع ہونے کا اعلان کیا، جب لوگ مسجد میں جمع ہو گئے تو عثمان بن حنیف نے بصرہ کے ایک شخص قیس نامی کو تقریر کرنے کے لیے کھڑا کیا، اس نے کہا کہ’’* *لوگو! اگر طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ہمراہی مکہ سے یہاں اپنی جان کی امان طلب کرنے آئے ہیں تو یہ بات غلط ہے، کیونکہ مکہ میں تو چڑیوں تک کو جان کی امان حاصل ہے، کوئی کسی کو نہیں ستا سکتا اور اگر یہ لوگ خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے آئے ہیں تو ہم لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل نہیں ہیں، پس مناسب یہ ہے کہ ان کو جس طرف سے یہ آئے ہیں اسی طرف لوٹا دو۔

یہ تقریر سن کر اسود بن سریع سعدی نے اٹھ کر کہا کہ یہ لوگ ہم کو قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سمجھ کر نہیں آئے، بلکہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم سے مدد طلب کرنے کے لیے آئے ہیں، یہ الفاظ سن کر لوگوں نے قیس مذکور پر کنکریاں پھینکنی شروع کیں اور جلسہ درہم برہم ہو گیا، عثمان بن حنیف کو یہ معلوم ہو گیا کہ بصرہ میں بھی طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کے ہمدرد و معاونین موجود ہیں

صف آرائی

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا اپنے لشکر کو لیے ہوئے مقام مربد تک آ پہنچیں تو عثمان بن حنیف اپنا لشکر لیے ہوئے بصرہ سے نکلا اور صف آراء ہوا، ام المومنین رضی اللہ عنہا کے لشکر کا میمنہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے سپرد تھا اور میسرہ کے سردار سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ تھے، جب دونوں لشکر آمنے سامنے ایک دوسرے کے قریب آ گئے تو اول میمنہ کی جانب صف لشکر سے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نکلے اور انہوں نے حمدو صلوۃ کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلتیں بیان کیں اور ان کے خون کا بدلہ لینے کی لوگوں کو ترغیب دی، اس کے بعد میسرہ کی جانب سے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نکلے اور انہوں نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کی تقریر کی تصدیق کی، پھر اس کے بعد سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہا نے نصائح فرمائے۔

سیدنا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی تقریر سن کر عثمان بن حنیف کے لشکریوں کے اسی وقت دو گروہ ہوں گئے، ایک تو عثمان بن حنیف کے ساتھ مقاومت اور مقابلہ پر آمادہ تھا اور دوسرے وہ جو طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ سے لڑنے کو اچھا نہیں جانتے تھے، سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہا اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ سے لڑنے کو اچھا نہیں جانتے تھے۔ سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہا اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے لشکریوں میں خود ہی پھوٹ پڑ گئی ہے تو میدان سے واپس چلے آئے اور پیچھے ہٹ کر اپنے خیموں میں مقیم ہو گئے، لیکن عثمان بن حنیف اپنے ساتھیوں کو لیے ہوئے برابر مقابلہ پر کھڑا رہا اور اس نے جاریہ بن قدامہ کو سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا، جس نے آ کر عرض کیا کہ اے ام المومنین رضی اللہ عنہا! عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا قتل ہونا زیادہ پسندیدہ تھا بمقابلہ اس کے کہ تم اس ملعون اونٹ پر سوار ہو کر نکلیں، تمہارے لیے اللہ تعالی نے پردہ مقرر کیا تھا تم نے پردہ کی ہتک کی، اگر تم اپنے ارادے سے آئی ہو تو مدینہ منورہ کی طرف واپس چلی جاؤ اور اگر بجبر و اکراہ آئی ہو تو خدائے تعالی سے مدد چاہو اور لوگوں سے واپس چلنے کو کہو

یہ تقریر ابھی ختم نہ ہونے پائی تھی کہ حکیم بن جبلہ نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لشکر پر حملہ کر دیا، ادہر سے بھی مدافعت کی گئی، مگر شام ہونے کے سبب لڑائی ختم ہو گئی، اگلے دن علی الصبح حکیم بن جبلہ نے صف آرائی کی اور طرفین سے لڑائی شروع ہوئی، حکیم بن جبلہ مارا گیا اور خلاصہ یہ کہ عثمان بن حنیف کو انجام کار شکست ہوئی، بصرہ پر طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کا قبضہ ہو گیا، عثمان بن حنیف گرفتار ہو کر سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کے سامنے آئے تو سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہا کو اطلاع دی گئی، انہوں نے چھوڑ دینے کا حکم دیا وہ وہاں سے چھوٹ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ ہوئے، اب سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہا کا بصرہ پر قبضہ ہو گیا، لیکن یہ قبضہ بھی ویسا ہی تھا جیسا کہ عثمان بن حنیف کا قبضہ تھا، یعنی موافق و مخالف دونوں قسم کے لوگ بصرہ میں موجود تھے۔ (صحیح بخاری کتاب الفتن)

سیدنا علیؓ کی مدینہ سے روانگی

سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ اہل مکہ مخالفت پر آمادہ ہیں تو آپ نے ملک شام کی طرف روانگی کا قصد ملتوی فرمایا اس کے بعد ہی خبر پہنچی کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ مع لشکر مکہ سے بصرہ کی طرف روانہ ہو گئے تو آپ کو بہت صدمہ ہوا، آپ نے تمام اہل مدینہ سے مدد طلب کی، خطبہ پڑھا اور لوگوں کو لڑائی کے لیے آمادہ کیا۔

اہل مدینہ کو یہ بہت ہی شاق گزرتا تھا کہ وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں لڑنے کو نکلیں، لیکن جب سیدنا ابوالہیثم بدری رضی اللہ عنہ، زیاد بن حنظلہ رضی اللہ عنہ، خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ، ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے آمادگی ظاہر کی تو اور لوگ بھی آمادہ ہو گئے۔ آخر ماہ ربیع الثانی ۳۶ ھ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ مدینہ سے نکل کر بصرہ کی طرف روانہ ہوئے، کوفیوں اور مصریوں کے گروہوں نے بھی آپ کی معیت اختیار کی

:عبداللہ بن سباء یہودی منافق، لشکر علی میں

اسی لشکر میں عبداللہ بن سبا بھی مع اپنے ساتھیوں اور راز داروں کے موجود تھا، جب آپ مدینہ سے روانہ ہوئے تو راستہ میں سیدنا عبداللہ بن سلام مل گئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ اے امیرالمومنین رضی اللہ عنہ! آپ مدینہ سے تشریف نہ لے جائیں، واللہ اگر آپ یہاں سے نکل جائیں گے تو مسلمانوں کا امیر یہاں پھر لوٹ کر نہ آئے گا، وہ لوگ گالیاں دیتے ہوئے عبداللہ بن سلام کی طرف دوڑے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کو چھوڑ دو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنھم میں یہ اچھا آدمی ہے، اس کے بعد آپ آگے بڑھے اور مقام ربذہ میں پہنچے تو خبر سنی کہ طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ بصرہ میں داخل ہو گئے

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مقام ربذہ میں قیام کر دیا اور یہیں سے ملک کے مختلف حصوں میں لوگوں کے نام احکام جاری کر دئیے۔ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور محمد بن جعفر رضی اللہ عنہ کو کوفہ کی جانب روانہ کیا کہ وہاں سے لوگوں کو جمع کر کے لاؤ، خود ربذہ میں ٹھہرے ہوئے لوگوں کو جنگ کی ترغیب دیتے رہے، چند روز کے بعد مدینہ منورہ سے اپنا اسباب اور سواری وغیرہ منگا کر روانگی کا عزم فرمایا

لوگوں کو چونکہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ سے لڑنا پسند نہ تھا اس لیے آپ نے فرمایا کہ میں ان لوگوں پر حملہ نہ کروں گا اور جب تک وہ خود حملہ کر کے مجھ کو مجبور نہ کر دیں گے ان سے نہ لڑوں گا اور جہاں تک ممکن ہو گا ان کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی جائے گی

ابھی ربذہ سے روانہ ہوئے تھے کہ قبیلہ طے کی ایک جماعت آ کر شریک لشکر ہوئی، آپ نے ان کی تعریف کی، ربذہ سے روانگی کے وقت آپ نے عمروبن الجراح کو مقدمۃ الجیش کا افسر مقرر فرمایا، مقام فید میں پہنچے تو قبیلہ طے اور قبیلہ اسد کے کچھ لوگوں نے حاضر ہو کر ہم رکاب چلنے کی اجازت طلب کی، آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے اقرار پر ثابت قدم رہو، یہی بہت ہے اور لڑنے کے لیے مہاجرین کافی ہیں، اسی مقام پر آپ کو کوفہ سے آتا ہوا ایک شخص ملا اس سے آپ نے دریافت کیا کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی نسبت تمہارا کیا خیال ہے؟
اس نے کہا اگر تم صلح و صفائی کے ارادے سے نکلے ہو، یعنی طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ وغیرہ سے صلح کرنا چاہتے ہو تو ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ تمہارا شریک ہے، آپ نے فرمایا کہ جب تک ہم پر کوئی حملہ آور نہ ہو ہمارا ارادہ لڑائی کا نہیں ہے

فید سے روانہ ہو کر مقام ثعلبیہ پر قیام ہوا تو وہاں خبر پہنچی کہ حکیم بن جبلہ مارا گیا اور عثمان بن حنیف خود آ کر حاضر خدمت ہوئے، ان کو دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ تم کو تمہاری مصیبتوں پر اجر ملے گا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ نے اول میرے ہاتھ پر بیعت کی، پھر انہوں نے بد عہدی کر کے مجھ پر خروج کیا، ان لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ و عثمان رضی اللہ عنہ کی اطاعت کی اور میری مخالفت کرتے ہیں، کاش یہ لوگ جانتے کہ میں ان سے جدا نہیں ہوں، یہ کہہ کر آپ طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں بد دعا کرنے لگے۔

:محمد بن ابوبکر کوفہ میں

محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور محمد بن جعفر رضی اللہ عنہ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی طرف روانہ کیا تھا، انہوں نے کوفہ میں پہنچ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا خط ابو موسیٰ کو دیا اور لوگوں کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حکم کے موافق لڑائی پر آمادہ کرنے لگے، مگر کسی نے آمادگی کا اظہار نہ کیا، جب محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے زیادہ اصرار کے ساتھ ترغیب دی تو لوگوں نے کہا کہ لڑائی کے لیے نکلنا دنیا کا راستہ ہے اور بیٹھ رہنا آخرت کی راہ ہے، لوگ یہ سن کر بیٹھ رہے۔

محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور محمد بن جعفر رضی اللہ عنہ کو یہ دیکھ کر غصہ آیا اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے سختی کا برتاؤ کیا، ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سے کہا کہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بیعت میری اور علی رضی اللہ عنہ دونوں کی گردن میں ہے، اگر لڑائی ضروری ہے تو قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے جہاں کہیں ہوں لڑنا چاہیے، یہ دونوں صاحب مایوس ہو کر کوفہ سے چل دئیے اور مقام ذی قار میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچ کر کوفہ کا تمام حال گوش گزار کیا۔

:اشترو ابن عباس رضی اللہ عنہ کوفہ میں

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور محمد بن جعفر رضی اللہ عنہ کے ناکام واپس آنے پر اشتر کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ تم ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لے کر جاؤ اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو جس طرح ممکن ہو سمجھاؤ، چنانچہ یہ دونوں کوفہ پہنچے، ہر چند ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو سمجھایا اور فوجی امداد طلب کی، لیکن ابو موسیٰ آخر تک ہر ایک بات کا صرف ایک ہی جواب دیتے رہے کہ جب تک فتنہ فرو نہ ہو جائے، میں تو سکوت ہی اختیار رکھوں گا۔ اشتر اور ابن عباس رضی اللہ عنہ دونوں مجبور ہو کر واپس چلے آئے اور عرض کیا کہ وہاں ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔

:عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور حسن بن علی رضی اللہ عنہ کوفہ میں

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اشترو ابن عباس رضی اللہ عنہ کے واپس آنے پر اپنے بیٹے حسن رضی اللہ عنہ اور عمار بن یاسر کو کوفہ کی طرف روانہ کیا، جب یہ دونوں کوفہ میں پہنچے تو ان کے آنے کی خبر سن کر ابوموسیٰ مسجد میں آئے، حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے معانقہ کیا اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی کوئی امداد نہیں کی اور فاجروں کے ساتھ شامل ہو گئے۔ عمار رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں میں نے ایسا نہیں کیا اتنے میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بول پڑے کہ لوگوں نے ہم سے اس معاملہ میں کوئی مشورہ نہیں کیا اور اصلاح کے سوا ہمارا کوئی دوسرا مقصود نہیں ہے اور امیر المومنین اصلاح امت کے کاموں میں کسی دوسرے سے ڈرتے نہیں ہیں۔

ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے نہایت ادب کے ساتھ جواب دیا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ نے سچ فرمایا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ عنقریب فتنہ برپا ہونے والا ہے، اس میں بیٹھا ہوا شخص کھڑا ہونے والے سے، کھڑا ہوا پیادہ چلنے والے سے، پیادہ چلنے والا سوار سے بہتر ہوگا اور کُل مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں، ان کا خون و مال حرام ہے۔ عمار رضی اللہ عنہ بن یاسر رضی اللہ عنہ کو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی باتوں سے کچھ ایسی برافروختگی ہوئی کہ وہ ابو موسی رضی اللہ عنہ کو گالی دے بیٹھے، ابو موسیٰ گالی سن کر خاموش ہو گئے، مگر حاضرین میں سے کسی نے ترکی بترکی جواب دیا بات بڑھی اور لوگ عمار رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے، مگر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے عمار رضی اللہ عنہ کو بچا لیا۔

انہیں ایام میں سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے بصرہ سے اہل کوفہ کے نام خطوط روانہ کئے، جن میں لکھا تھا کہ اس زمانہ میں تم لوگ کسی کی مدد نہ کرو، اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ رہو یا ہماری مدد کرو کہ ہم عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے نکلے ہیں، اسی جلسہ میں زید بن صوحان نے ام المومنین رضی اللہ عنھا کا خط مسجد میں لوگوں کو پڑھ کر سنانا شروع کیا، شبث بن ربعی گالی دے بیٹھا، اس سے حاضرین میں ایک جوش پیدا ہو گیا اور علانیہ سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کی طرف داری کا اظہار کرنے لگے، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ اس جوش و خروش کو کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ فتنہ کے فرو ہونے تک گھروں میں بیٹھ رہو، میری اطاعت کرو، عرب کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلہ بن جاؤ تاکہ مظلوم تمہارے سایہ میں آ کر پناہ گزیں ہوں، تم لوگ اپنے نیزوں کی نوکیں نیچی کر لو اور اپنی تلواروں کو نیام میں کر لو۔

ان باتوں کو سن کر زید بن صوحان نے کھڑے ہو کر لوگوں کو سیدنا امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی مدد کرنے کی ترغیب دی، اس کے بعد اور کئی شخص یکے بعد دیگرے تائید کرنے کو کھڑے ہو گئے، اس کے بعد عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بولے کہ لوگو! سیدنا علی رضی اللہ عنہ تم کو حق دیکھنے کے لیے بلایا ہے چلو اور ان کے ساتھ ہو کر لڑو، پھر سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگو! ہماری دعوت قبول کرو اور ہماری اطاعت کرو اور جس مصیبت میں تم اور ہم سب مبتلا ہو گئے ہیں اس میں ہماری مدد کرو، امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مظلوم ہیں تو ہماری مدد کرو اور اگر ہم ظالم ہیں تو ہم سے حق لو، وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے میرے ہاتھ پر بیعت کی اور سب سے پہلے بدعہدی کی، سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر لوگوں کے دلوں پر ایک فوری اثر ہوا اور سب نے اپنی آمادگی ظاہرکر دی۔

عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو روانہ کرنے کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مالک اشتر کو بھی روانہ کر دیا تھا، اشتر کوفہ میں اس وقت پہنچا جب کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ تقریر کر رہے تھے، اشتر کے آ جانے سے اور بھی تقویت ہوئی اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی بات پھر کسی نے نہ سنی، حالانکہ وہ آخر تک اپنی اسی رائے کا اظہار کرتے رہے کہ گوشہ نشینی اور غیر جانب داری اختیار کرو۔ مالک اشتر نے پہنچ کر قبائل کو آمادہ کرنے میں خوب کار نمایاں کیا، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ تم کل تک دارالامارۃ کو خالی کردو

غرض یہ کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ، اشتر کوفہ سے نو ہزار کی جمعیت لے کر روانہ ہوئے، جس وقت اہل کوفہ کا یہ لشکر مقام ذی قار کے متصل پہنچا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کا استقبال کیا اور ان لوگوں کی ستائش کی، پھر فرمایا کہ اے اہل کوفہ ہم نے تم کو اس لیے تکلیف دی ہے کہ تم ہمارے ساتھ مل کر اہل بصرہ کا مقابلہ کرو، اگر وہ لوگ اپنی رائے سے رجوع کر لیں تو سبحان اللہ اس سے بہتر اور کوئی بات نہیں اور اگر انہوں نے اپنی رائے پر اصرار کیا تو ہم نرمی سے پیش آئیں گے تاکہ ہماری طرف سے ظلم کی ابتدا نہ ہو لیکن ہم کسی کام کو بھی جس میں ذرا سا بھی فساد ہو گا، بغیر اصلاح نہ چھوڑیں گے۔ یہ باتیں سننے کے بعد اہل کوفہ بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقام ذی قار میں قیام پزیر ہو گئے۔

دوسرے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کو بصرہ کی طرف روانہ کیا، اسی مقام ذی قار میں سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ مشہور تابعی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی.

:مصالحت کی کوشش

سیدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس لیے بصرہ کی طرف روانہ کیا کہ وہ وہاں جا کر سیدنا ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کا عندیہ معلوم کریں اور جہاں تک ممکن ہو ان حضرات کو صلح و اشتی کی طرف مائل کر کے بیعت اور تجدید بیعت کے لیے آمادہ کریں۔ سیدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ بڑے زبان آور عقلمند اور ذی اثر اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے فیض یافتہ تھے، انہوں نے بصرہ میں پہنچ کر مذکورۃ الصدر بزرگوں سے ملاقات کی۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ آپ کو اس کام پر کس چیز نے آمادہ کیا ہے اور آپ کی کیا خواہش ہے؟
انہوں نے فرمایا کہ میرا مدعا صرف مسلمانوں کی اصلاح اور ان کو قرآن پر عامل بنانا ہے، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ وزبیر رضی اللہ عنہ بھی وہیں موجود تھے، ان سے بھی یہی سوال کیا گیا اور انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا، یہ سن کر سیدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر آپ کا منشاء اصلاح اور عمل بالقرآن ہے تو یہ مقصد تو اس طرح پورا نہ ہو گا جس طرح آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان بزرگوں نے جواب دیا کہ قرآن کریم میں قصاص کا حکم ہے، ہم خون عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص لینا چاہتے ہیں

سیدنا قعقاع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قصاص اس طرح کہاں لیا جاتا ہے؟ اول امامت وخلافت کا قیام و استحکام ضروری ہے تاکہ امن و امان قائم ہو اس کے بعد قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے بہ آسانی قصاص لیا جا سکتا ہے، لیکن جب امن و امان اور کوئی نظام ملکی باقی نہ رہے تو ہر شخص کہاں مجاز ہے کہ وہ قصاص لے، دیکھو یہیں بصرہ میں آپ نے بہت سے آدمیوں کو قصاص عثمانی میں قتل کر ڈالا، لیکن حرقوص بن زہیر آپ کے ہاتھ نہ آیا، آپ نے اس کا تعاقب کیا تو ۶ ہزار آدمی اس کی حمایت میں آپ سے لڑنے کے لیے آمادہ ہو گئے اور آپ نے مصلحتاً اس کا تعاقب چھوڑ دیا، اسی طرح اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ مصلحتاً فتنہ کے دبانے اور طاقت حاصل کرنے کے انتظار میں مجبورانہ طور پر فوراً قصاص نہ لے سکے تو آپ کو انتظار کرنا چاہیے تھا، آپ کے لیے یہ کہاں جائز تھا کہ آپ خود کھڑے ہو جائیں اور اس فتنہ کو اور بڑھائیں، اس طرح تو فتنہ ترقی کرے گا، مسلمانوں میں خونریزی ہو گی اور قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ قصاص سے بچے رہیں گے۔

یہ باتیں کہہ کر آخر میں سیدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے نہایت دل سوزی کے ساتھ کہا کہ اے بزرگو! اس وقت سب سے بڑی اصلاح یہی ہے کہ آپس میں صلح کر لو تاکہ مسلمانوں کو امن و عافیت حاصل ہو، آپ حضرات مفاتیح خیر اور انجم ہدایت ہیں، آپ برائے خدا ہم لوگوں کو ابتلاء میں نہ ڈالیں، ورنہ یاد رہے کہ آپ بھی ابتلاء میں مبتلا ہو جائیں گے اور امت مسلمہ کو بڑا نقصان پہنچے گا

سیدنا قعقاع رضی اللہ عنہ کی ان باتوں کا سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہا اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے دلوں پر بڑا اثر ہوا اور انہوں نے کہا کہ اگر سیدنا علی کے یہی خیالات ہیں جو آپ نے بیان کئے اور وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کا اردہ رکھتے ہیں تو پھر لڑائی اور مخالفت کی کوئی بات ہی باقی نہیں رہتی، ہم اب تک یہی سمجھتے رہے کہ ان کو قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے ہمدردی ہے اور اسی لیے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ ان کے لشکر میں شریک اور ان کے زیر حمایت سب اہم کاموں میں دخیل ہیں۔

قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے جو کچھ کہا ہے یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خیالات کی ترجمانی ہے، ان حضرات نے فرمایا کہ پھر ہم کو بھی ان سے کوئی مخالفت نہ ہوگی، اس گفتگو کے بعد سیدنا قعقاع رضی اللہ عنہ بصرہ سے رخصت ہو کر امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی طرف چلے، ان کے ساتھ ہی بصرہ کے با اثر لوگوں کا ایک وفد بھی ہو لیا، یہ لوگ اس لیے گئے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور اہل کوفہ کے خیالات معلوم کر کے آئیں کہ وہ حقیقتاً مصالحت پر آمادہ ہیں یا نہیں،* *کیونکہ انہوں نے یہ افواہیں سنی تھیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ ارادہ ہے کہ بصرہ کو فتح کر کے جوانوں کو قتل کر دیں گے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی اور غلام بنا لیں گے۔ یہ خبریں عبداللہ بن سبا کی جماعت کے لوگوں نے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شریک تھے بصرہ میں مشہور کرا دی تھیں۔

جب سیدنا قعقاع بن عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے تمام کیفیت گوش گزار کی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ بہت ہی خوش ہوئے، پھر اہل بصرہ کے وفد نے کوفہ والوں سے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شریک تھے، مل کر ان کی رائے دریافت کی تو سب نے صلح و آشتی کو مناسب اور بہتر بتایا، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان بصرہ والوں کو بھی اپنی خدمت میں طلب کر کے ہر طرح اطمینان دلایا، یہ لوگ بھی خوش و خرم واپس آئے اور سب کو صلح و مصالحت کے یقینی ہونے کی خوش خبری سنائی

:فتنہ پردازی کے لیے بلوائیوں کی مشاورت

صلح کی تمہید قائم ہو جانے کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تمام اہل لشکر کو جمع کر کے ایک فصیح و بلیغ اور نہایت پر تاثیر تقریر فرمائی اور حکم دیا کہ کل اہل بصرہ کی جانب کوچ ہو گا، لیکن ہمارا بصرہ کی جانب بڑھنا جنگ و پیکار کے لیے نہیں، بلکہ صلح و آشتی قائم کرنے کے لیے اور آتش جنگ پر پانی ڈالنے کے لیے ہے، ساتھ ہی آپ نے یہ حکم دیا کہ جو لوگ محاصرہ عثمان رضی اللہ عنہ میں شریک تھے وہ ہمارے ساتھ کوچ نہ کریں بلکہ ہمارے لشکر سے علیحدہ ہو جائیں۔

یہ تقریر اور حکم سن کر اہل مصر اور عبداللہ بن سبا کو بڑی فکر پیدا ہوئی، سیدنا علی کے لشکر میں ایسے لوگوں کی تعداد دو ڈھائی ہزار کے قریب تھی جن میں بعض بڑے با اثر اور چالاک بھی تھے، ان لوگوں کے سرداروں اور سمجھ داروں کو عبداللہ بن سبا نے الگ ایک خاص مجلس میں مدعو کیا، آج مجلس خاص میں عبداللہ بن سبا، ابن بلجم، اشتر اور اشتر کے خاص خاص احباب، علیا بن الہیتم، سالم بن ثعلبہ، شریح بن اونی وغیرہم بلوائی سردار شریک ہوئے اور آپس میں کہنے لگے کہ اب تک طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ قصاص کے خواہاں تھے، لیکن اب تو امیر المومنین رضی اللہ عنہ بھی ان ہی کے ہم خیال معلوم ہوتے ہیں، آج ہم کو جدا ہونے کا حکم مل چکا ہے، اگر آپس میں ان کی صلح ہو گئی تو متفق ہو جانے کے بعد یہ ہم سے ضرور قصاص لیں گے اور ہم سب کو سزا دیں گے

اشتر نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہ ہوں یا علی رضی اللہ عنہ ہوں، ہمارے متعلق تو سب کی رائے ایک ہی ہے، اب جو یہ صلح کر لیں گے تو یقینا ہمارے خون پر ہی صلح کریں گے، لہذا میرے نزدیک تو مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ و علی رضی اللہ عنہ تینوں کو عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا دیں اس کے بعد خود بخود امن و سکون پیدا ہو جائے گا۔

عبداللہ بن سبا نے جو اس مجلس کا پریزیڈنٹ بنا ہوا تھا کہا کہ تم لوگوں کی تعداد بہت کم ہے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اس وقت بیس ہزار کا لشکر موجود ہے، اسی طرح بصرہ میں طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ بھی تیس ہزار سے فوج کم نہیں ہے، ہمارے لیے اپنے مقصد کا پورا کرنا سخت دشوار ہے۔

سالم بن ثعلبہ بولا کہ ہم کو صلح ہو جانے تک کہیں الگ اور دور چلے جانا چاہیے، شریح نے بھی اسی رائے سے اتفاق ظاہر کیا، لیکن عبداللہ بن سبا بولا کہ یہ رائے بھی کم زور اور غیر مفید ہے، اس کے بعد ہر شخص اپنی اپنی رائے بیان کرتا رہا اور کوئی فیصلہ نہ ہوا، آخر کار سب نے عبداللہ بن سبا سے کہا کہ آپ اپنی رائے کا اظہار کریں، ممکن ہے کہ سب اسی پر متفق ہو جائیں، عبداللہ بن سبا نے کہا کہ بھائیو! ہم سب کے لیے مناسب یہی ہے کہ سب کے سب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ملے جلے رہیں اور ان کے لشکر سے جدا نہ ہوں، بالفرض اگر وہ جدا بھی کر دیں اور ہم کو نکال بھی دیں تو ہم ان کے لشکر کے قریب ہی رہیں، زیادہ فاصلہ اختیار نہ کریں اور کہہ دیں کہ اس لیے ہم آپ سے قریب رہنا چاہتے ہیں کہ مبادا صلح نہ ہو اور لڑائی چھڑ جائے تو ہم بروقت شریک جنگ ہو کر آپ کی امداد کر سکیں، شریک لشکر یا قریب لشکر رہ کر ہم کو کوشش کرنی چاہیے کہ دونوں لشکر جانبین سے جب ایک دوسرے کے قریب ہوں تو کسی صورت سے لڑائی چھڑ جائے اور صلح نہ ہونے پائے اور یہ کچھ مشکل کام نہیں ہے، جس وقت فریقین آپس میں لڑ پڑے تو ہمارے لیے کوئی خطرہ باقی نہ رہے گا

:جنگِ جمل

صبح اٹھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لشکر کو کوچ کا حکم دیا، بلوائیوں کا لشکر جو مدینہ سے آپ کے ساتھ تھا، شریکِ لشکر رہا، ان کا ایک حصہ الگ ہو کر لشکر کے قریب قریب رہا اور ایک حصہ لشکر میں ملا جلا رہا، راستے میں بکربن وائل اور عبدالقیس وغیرہ قبائل بھی لشکر علی رضی اللہ عنہ میں شریک ہو گئے، بصرہ کے قریب پہنچ کر مقام قصر عبیداللہ کے میدان میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ خیمہ زن ہوئے۔

ادھر سے سید,تنا ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ بھی بمع لشکر آ کر اسی میدان میں فروکش ہوئے، تین روز تک دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابلہ خاموش پڑے رہے، اس عرصہ میں سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے بعض ہمراہیوں نے کہا کہ ہم کو لڑائی شروع کر دینی چاہیے، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کی معرفت مصالحت کی گفتگو ہو رہی ہے، ہم کو اس کے نتیجے کا انتظار کرنا چاہیے، صلح کی گفتگو کے دوران میں حملہ آوری کرنا کسی طرح جائز نہیں ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھی ان کے بعض لشکریوں نے جنگ کے شروع کرنے کا تقاضا کیا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔

ایک روز ایک شخص نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے استفسار کیا کہ آپ بصرہ کی طرف کیوں تشریف لائے؟ آپ نے جواباً فرمایا کہ فتنہ فرو کرنے اور مسلمانوں کے درمیان مصالحت پیدا کرنے کے لیے، اس نے کہا کہ اگر بصرہ والے آپ کا کہا نہ مانیں اور آپ کے مد مقابل لوگ صلح و آشتی کی طرف متوجہ نہ ہوں تو پھر آپ کیا کریں گے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں گے، اس شخص نے کہا کہ آپ تو ان کو چھوڑ دیں گے
لیکن اگر انہوں نے آپ کو نہ چھوڑا تو پھر آپ کیا کریں گے؟
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس حالت میں ہم مدافعت کریں گے۔ اتنے میں ایک شخص بول اٹھا کہ طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ وغیرہ کہتے ہیں کہ ہم نے خدائے تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے خروج کیا ہے، کیا آپ کے نزدیک ان کے پاس بھی کوئی دلیل خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کی ہے۔؟

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں ان کے پاس بھی دلیل ہے، پھر اس نے دریافت کیا کہ آپ کے پاس بھی کوئی دلیل اس بات کی ہے کہ آپ نے اس خون کا معاوضہ لینے میں تاخیر کی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں جب کوئی امر مشتبہ ہو جائے اور حقیقت کا دریافت کرنا دشوار ہو تو فیصلہ احتیاط سے کرنا چاہیے، جلدی کرنا کسی طرح مناسب نہیں ہے، پھر اسی شخص نے پوچھا کہ اگر کل مقابلہ ہو گیا اور لڑائی شروع ہو گئی تو ہمارا اور ان کا کیا حال ہو گا؟
سیدنا علی نے فرمایا کہ ہمارے اور ان کے یعنی دونوں طرف کے مقتولین جنت میں ہوں گے۔

اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکمی بن سلمہ اور مالک بن حبیب کو سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام دے کر بھیجا کہ اگر آپ حضرات اس اقرار پر جس کی سیدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اطلاع دی ہے قائم ہیں تو لڑائی سے رکے رہیں جب تک کوئی بات طے نہ ہو جائے، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ نے کہلا بھجوایا کہ آپ مطمئن رہیں ہم اپنے اقرار پر قائم ہیں، اس کے بعد سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ صفِ لشکر سے نکل کر دونوں لشکروں کے درمیان میدان میں آئے، ان دونوں کو میدان میں دیکھ کر ادھر سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی اپنے لشکر سے نکلے اور اس قدر قریب پہنچ گئے کہ گھوڑوں کے منہ آپس میں مل گئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اول سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم نے میرے خلاف اور میری دشمنی کے لیے یہ لشکر فراہم کیا اور میرے مقابلہ پر آئے، کیا عند اللہ تم کوئی عذر پیش کر سکتے ہو اور اپنے اس کام کو جائز ثابت کر سکتے ہو؟

کیا میں تمہارا دینی بھائی نہیں ہوں؟
کیا تم پر میرا اور مجھ پر تمہارا خون حرام نہیں ہے؟
سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ کیا تم نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں سازش نہیں کی؟
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دانا و بینا ہے اور وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیجے گا اور اے طلحہ رضی اللہ عنہ کیا تم نے میری بیعت نہیں کی تھی؟ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہاں میں نے بیعت کی تھی، لیکن میری گردن پر تلوار تھی، یعنی میں نے مجبوراً بیعت کی تھی اور وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کے ساتھ مشروط تھی۔

اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ کیا تم کو وہ دن یاد ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تم سے فرمایا تھا کہ تم ایک شخص سے لڑوگے اور تم اس پر ظلم کرنے والے ہوگے۔
(یہ حدیث ضعیف ہے۔ ملاحظہ ہو سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم ابن کثیر ج ۳ ص ۴۹۳۔)

یہ سن کر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں مجھ کو یاد آ گیا، لیکن آپ نے میری روانگی سے پہلے مجھ کو یہ بات یاد نہ دلائی ورنہ میں مدینہ سے روانہ نہ ہوتا اور اب واللہ میں تم سے ہرگز نہ لڑوں گا، اس گفتگو کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنے اپنے لشکر کی طرف واپس آ کر سیدتنا ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آج مجھ کو علی رضی اللہ عنہ نے ایک ایسی بات یاد دلائی ہے کہ میں ان سے کسی حالت میں لڑنا پسند نہ کروں گا، میرا ارادہ ہے کہ میں سب کو چھوڑ کر واپس چلا جاؤں، سیدتنا ام المومنین رضی اللہ عنہا بھی پہلے ہی سے اس قسم کا خیال رکھتی تھیں،

مگر ام المومنین رضی اللہ عنہا نے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی بات کا ابھی کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اپنے باپ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے کہ آپ نے جب دونوں فریق میدان میں جمع کر دئیے اور ایک دوسرے کی عداوت پر ابھار دیا تو اب چھوڑ کر جانے کا قصد فرماتے ہیں، مجھ کو تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کو دیکھ کر ڈر گئے اور آپ کے اندر بزدلی پیدا ہو گئی، یہ سن کر سیدنا زبیر اسی وقت اٹھے اور تن تنہا ہتھیار لگا کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی طرف گئے اور ان کی فوج کے اندر داخل ہو کر اور ہر طرف پھرکر واپس آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو آتے ہوئے دیکھ کر پہلے ہی اپنے آدمیوں کو حکم دے دیا تھا کہ خبر دار! کوئی شخص ان سے متعرض نہ ہو اور ان کا مقابلہ نہ کرے، چنانچہ کسی نے ان کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی۔

سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے واپس جا کر اپنے بیٹے سے کہا کہ میں اگر ڈرتا تو تنہا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں اس طرح نہ جاتا، بات صرف یہ ہے کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کے سامنے قسم کھالی ہے کہ تمہارا مقابلہ نہ کروں گا اور تم سے نہ لڑوں گا، سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ قسم کا کفارہ دے دیں اور اپنے غلام کو آزاد کر دیں، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں عمار رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے اور سیدنا محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ عمار رضی اللہ عنہ کو باغی گروہ قتل کرے گا

( صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ: حدیث: ۴۴۷)

غرض جنگ و پیکار کے خیالات اور ارادے طرفین کے سرداروں نے بتدریج اپنے دلوں سے نکال ڈالے اور نتیجہ یہ ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ و طلحہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیدنا محمد بن طلحہ رضی اللہ عنہ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آئے اور صلح کی تمام شرائط تیسرے دن شام کے وقت طے اور مکمل ہو گئیں اور بات یہ قرار پائی کہ کل صبح صلح نامہ لکھا جائے اور اس پر فریقین کے دستخط ہو جائیں

:اہلِ جمل پر سبائیوں اور بلوائیوں کا حملہ

دونوں لشکروں کو ایک دوسرے کے سامنے پڑے ہوئے تین دن ہو چکے تھے، اس تین دن کے عرصہ میں عبداللہ بن سبا کی جماعت اور بلوائیوں کے گروہ کو جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کے متصل پڑے ہوئے تھے، کوئی موقع اپنی شرارت آمیز ارادوں کے پورا کرنے کا نہ ملا، اب جب کہ ان کو یہ معلوم ہوا کہ صبح کو صلح نامہ لکھا جائے گا تو بہت فکر مند ہوئے اور رات بھر مشورے کرتے رہے، آخر سپیدۂ سحر کے نمودار ہونے کے قریب انہوں نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کے لشکر یعنی اہل جمل پر حملہ کر دیا، جس حصۂ فوج پر یہ حملہ ہوا اس نے بھی مدافعت میں ہتھیاروں کا استعمال شروع کیا، جب ایک طرف سے لڑائی شروع ہو گئی تو فوراً ہر طرف طرفین کی فوجیں لڑائی پر مستعد ہو کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہو گئیں۔

لڑائی کا یہ شور سن کر سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اپنے خیموں سے نکلے اور شوروغل کا سبب دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فوج نے اچانک حملہ کر دیا، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے افسوس علی رضی اللہ عنہ بغیر کشت و خون کے باز نہ آئیں گے۔

ادھر شور و غل کی آواز سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے خیمہ سے نکلے اور شورو غل کی وجہ پوچھی تو وہاں پہلے ہی سے عبداللہ بن سبا نے اپنے چند آدمیوں کو لگا رکھا تھا انہوں نے فوراً جواب دیا کہ طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ نے ہمارے لشکر پر اچانک بے خبری میں حملہ کر دیا ہے اور مجبوراً ہمارے آدمی بھی مدافعا نہ لڑائی پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ افسوس طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ بغیر خوں ریزی کئے باز نہ آئیں گے، یہ فرما کر اپنے فوج کے حصوں کو احکام بھیجنے اور دشمن کا مقابلہ کرنے پر آمادہ کرنے لگے۔

غرض بڑے زور و شور سے لڑائی شروع ہو گئی، فریقین کے سپہ سالاروں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو مجرم سمجھا اور حقیقت اصلیہ سے دونوں بے خبر و ناواقف رہے، تاہم فریقین کے لشکر میں لڑائی شروع ہونے کے بعد ایک ہی قسم کی منادی ہوئی کہ’’ اس معرکہ میں کوئی شخص بھاگنے والے کا تعاقب نہ کرے، کسی زخمی پر حملہ نہ کرے، نہ کسی کا مال و اسباب چھینے، یہ منادی طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف سے بھی ہوئی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بھی جو دلیل اس امر کی ہے کہ دلوں میں ایک دوسرے کی عداوت و دشمنی موجود نہ تھی، بلکہ دونوں فریق اس لڑائی کو بہت ہی گراں اور ناگوار محسوس کر رہے تھے اور مجبوراً میدان میں موجود تھے۔

عبداللہ بن سبا اور مصر وغیرہ کے بلوائیوں کی جماعت نے اب خوب آزادانہ میدان جنگ میں اپنی بہادری کے جوہر دکھانے شروع کر دئیے اور ان سبائی اور بلوائیوں کی جماعت کے سرداروں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اردگرد رہ کر اپنی جاں فروشی و جاں فشانی کے نظارے ان کو دکھائے۔

کعب بن مسور سیدتنا ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آ کر عرض کرنے لگے کہ لڑائی شروع ہو گئی ہے، مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اونٹ پر سوار ہو جائیں اور صلح کی کوئی صورت پیدا ہو جائے، یہ سن کر سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہا نے آمادگی ظاہر کی اور فوراً اونٹ پر سوار ہو گئیں، آپ کے ہودج پر لوگوں نے احتیاط کی غرض سے زرہیں پھیلا دیں اور اونٹ کو ایسے موقع پر لا کھڑا کر دیا جہاں سے لڑائی کا ہنگامہ خوب نظر آتا تھا، مگر توقع کے خلاف بجائے اس کے کہ لڑائی کم ہوتی اور رکتی اس اونٹ یعنی ام المومنین رضی اللہ عنہا کی سواری کو دیکھ کر لڑائی میں اور بھی زیادہ اشتعال و اشتداد پیدا ہو گیا۔ لڑنے والوں نے یہ سمجھا کہ سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہا بحیثیت سپہ سالار میدان جنگ میں تشریف لائی ہیں اور ہم کو زیادہ بہادری کے ساتھ لڑنے کی ترغیب دے رہی ہیں۔

ادھر سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اہل جمل کی شدت و چیرہ دستی دیکھ کر خود مسلح ہو کر حملہ آور ہونا اور اپنی فوج کو ترغیب جنگ دینا ضروری سمجھا، لڑائی کو شروع ہوئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاؤں میں ایک تیر لگا اور تمام موزہ خون سے بھر گیا، اس تیر کا زخم نہایت اذیت رساں تھا اور خون کسی طرح نہ رکتا تھا، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کی یہ حالت سیدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے دیکھی جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل تھے اور فرمایا کہ اے ابو محمد رضی اللہ عنہ ! آپ کا زخم بہت خطرناک ہے، آپ فوراً بصرہ میں واپس تشریف لے جائیں، چنانچہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ بصرہ کی طرف متوجہ ہوئے، بصرہ میں داخل ہوتے ہی وہ زخم کے صدمہ سے بے ہوش ہو گئے اور وہاں پہنچنے کے بعد ہی انتقال کر گئے، اور وہیں مدفون ہوئے۔

مروان بن الحکم اس لڑائی میں سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل تھا، جب لڑائی شروع ہو گئی تو سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ میں بھی علی رضی اللہ عنہ کا مقابلہ ہرگز نہ کروں گا، اسی خیال سے وہ لشکر سے الگ ہو کر ایک طرف کھڑے ہوئے

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی باتوں پر غور کر رہے تھے اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ و سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گفتگو اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ والی پیشگوئی کو یاد کر کے اس لڑائی سے بالکل جدا اور غیر جانب دار ہونا چاہتے تھے، اس حالت میں مروان بن الحکم نے ان کو دیکھا اور وہ سمجھ گیا کہ یہ لڑائی میں کوئی حصہ لینا نہیں چاہتے اور صاف بچ کر نکل جانا چاہتے ہیں چنانچہ اس نے اپنے غلام کو اشارہ کیا اس نے مروان کے چہرے پر چادر ڈال دی،

مروان نے چادر سے اپنا منہ چھپا کر کہ کوئی شناخت نہ کرے ایک زہر آلود تیر کمان میں جوڑ کر سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو نشانہ بنایا، یہ تیر سیدنا طلحہ کے پاؤں کو زخمی کر کے گھوڑے کے پیٹ میں لگا اور گھوڑا سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو لیے ہوئے گرا، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے غلام کو جو اتفاقاً اس طرف سامنے آ گیا تھا بلایا اور اس کے ہاتھ پر یا سیدنا قعقاع رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر جو وہاں آ گئے تھے نیابتاً سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور اس تجدید بیعت کے بعد بصرہ میں آ کر انتقال فرمایا۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کی اور ان کی بہت تعریف فرماتے اور افسوس کرتے رہے

:سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی صلح پسندی

جب لڑائی شروع ہو گئی تو سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ جو پہلے ہی سے ارادہ فرما چکے تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے نہ لڑیں گے، میدان جنگ سے جدا ہو گئے اتفاقاً سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے ان کو دیکھ لیا اور بڑھ کر ان کو لڑائی کے لیے ٹوکا، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے نہ لڑوں گا، لیکن سیدنا عمار رضی اللہ عنہ ان کو لڑائی کا بانی سمجھ کر سخت ناراض تھے، انہوں نے حملہ کیا، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ ان کے ہر ایک وار کو روکتے اور اپنے آپ کو بچاتے رہے اور خود ان پر کوئی حملہ نہیں کیا، یہاں تک کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ تھک کر رہ گئے اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ وہاں سے نکل کر چل دئیے

اہل بصرہ سے احنف بن قیس اپنے قبیلے کی ایک بڑی جمعیت لیے ہوئے دونوں لشکروں سے الگ بالکل غیر جانب دار حالت میں ایک طرف خیمہ زن تھے، انہوں نے پہلے ہی سے دونوں طرف کے سرداروں کو مطلع کر دیا تھا کہ ہم دونوں میں سے کسی کی حمایت یا مخالفت نہ کریں گے۔

سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ میدان جنگ سے نکل کر چلے تو احنف بن قیس رضی اللہ عنہ کی لشکر گاہ کے قریب سے ہو کر گزرے، احنف بن قیس کے لشکر سے ایک شخص عمرو بن الجرموز سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے پیچھے ہو لیا اور قریب پہنچ کر ان کے ساتھ ساتھ چلنے اور کوئی مسئلہ ان سے دریافت کرنے لگا، جس سے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو اس کی نسبت کوئی شک و شبہ پیدا نہ ہوا، لیکن اس کی طبیعت میں کھوٹ تھا اور وہ ارادۂ فاسد سے ان کے ہمراہ ہوا تھا، وادی السباع میں پہنچ کر نماز کا وقت آیا تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نماز پڑھنے کھڑے ہوئے، بحالت نماز جب کہ سجدہ میں تھے، عمروبن الجرموز نے ان پر وار کیا، وہاں سے وہ سیدھا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اول کسی شخص نے آ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا قاتل آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے، آپ نے فرمایا اس کو اجازت دے دو، مگر ساتھ ہی اس کو جہنم کی بھی بشارت دے دو، جب وہ سامنے آیا اور آپ نے اس کے ساتھ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی تلوار دیکھی تو آپ کے آنسو نکل پڑے اور کہا کہ اے ظالم! یہ وہ تلوار ہے جس نے عرصہ دراز تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت کی ہے۔

عمرو بن الجرموز پر ان الفاظ کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شان میں ان کے سامنے ہی چند گستاخانہ الفاظ کہہ کر اور تلوار خود ہی اپنے پیٹ میں بھونک کر مر گیا اور اس طرح واصل بہ جہنم ہو گیا

:سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کی علیحدگی

لڑائی کے شروع ہی میں سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ میدان جنگ سے جدا ہو گئے تھے، قبائل کے افسر اور چھوٹے چھوٹے سردار اپنی اپنی جمعیتوں کو لیے ہوئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے مقابلہ پر ڈٹے ہوئے تھے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود اس کوشش میں مصروف تھیں کہ کسی طرح لڑائی رکے اور صلح کی صورت پیدا ہو، لہذا اس طرف یعنی اہل جمل کی طرف فوج کو لڑانے والا کوئی ایک سردار نہ تھا، لڑنے والوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ہم لڑائی میں جو کوشش کر رہے ہیں یہ سیدنا ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا منشاء اصلی ہے یا نہیں، سیدنا ام المومنین رضی اللہ عنہا اور ان کا تمام لشکر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ خیال رکھتے تھے کہ انہوں نے صلح کی گفتگو کر کے ہم کو دھوکا دینا چاہا اور پھر ظالمانہ طور پر اچانک ہم پر حملہ کر دیا، اس حالت میں وہ اپنے لشکر کو لڑنے اور مدافعت کرنے سے روک بھی نہیں سکتی تھیں

ادھر اہل بصرہ کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ جو خبریں ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی نسبت پہلے سنی تھیں کہ وہ اہل بصرہ کو قتل کر کے ان کے بیوی بچوں کو باندی غلام بنا لیں گے وہ صحیح تھیں، غرض دس ہزار سے زیادہ مسلمان دونوں طرف مقتول ہوئے اور آخر تک اصل حقیقت کسی کو معلوم نہ ہوئی کہ یہ لڑائی کس طرح ہوئی؟
ہر شخص اپنے فریق مقابل ہی کو ظالم اور خطا کار سمجھتا رہا۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ چونکہ خود لشکر کی سپہ سالاری فرما رہے تھے، لہذا ان کی طرف سے ایسے ایسے سخت حملے ہوئے کہ اہل جمل کو پسپا ہونا پڑا اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا جمل سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حملہ آور فوج کی زد میں آ گیا، اس اونٹ کی مہار کعب کے ہاتھ میں تھی، وہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو مشورہ دے کر میدان جنگ کی طرف لائے تھے کہ شاید کوئی صلح کی صورت پیدا ہوجائے

جب سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ حملہ آور فوج کسی طرح نہیں رکتی اور اونٹ کو بچانے کے لیے بصرہ والوں نے جو اول پسپا ہو گئے تھے از سر نو اپنے قدم جما لیے ہیں اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ تلوار چل رہی ہے تو انہوں نے کعب کو حکم دیا کہ تم اونٹ کی مہار چھوڑ کر قرآن مجید کو بلند کر کے آگے بڑھو اور لوگوں کو قرآن مجید کے محاکمہ کی طرف بلاؤ اور کہو کہ ہم کو قرآن مجید کا فیصلہ منظور ہے تم بھی قرآن مجید کا فیصلہ مان لو، کعب نے آگے بڑھ کرجوں ہی اعلان کیا، عبداللہ بن سبا کے لوگوں نے یک لخت ان پر تیروں کی بارش کی اور وہ شہید ہو گئے، اس کے بعد اہل بصرہ میں اور بھی جوش پیدا ہوا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے اونٹ کے اردگرد لاشوں کے انبار لگ گئے، اہل بصرہ برابر قتل ہو رہے تھے، لیکن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ تک حریف کو نہیں پہنچنے دیتے تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کیفیت کو دیکھ کر فوراً سمجھ لیا کہ جب تک یہ ناقہ میدان جنگ میں نظر آتا رہے گا لڑائی کے شعلے کبھی فرونہ ہوں گے

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا اونٹ لڑائی اور کشت و خوں کا مرکز بنا ہوا تھا، چاروں طرف سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے کجاوہ پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی اور وہ قاتلین عثمان پر بد دعا کررہی تھیں۔
(اور تیروں کی بارش اپنے برسانے والوں کے اسلام و ایمان کی حقیقت کا پتہ دے رہی تھی۔)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ اس ناقہ کو کسی طرح مارو، جس وقت ناقہ گرا فوراً لڑائی ختم ہو جائے گی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اشتر جو بلوائیوں کا سرگروہ تھا، اس وقت میدان جنگ میں بڑی بہادری سے لڑ رہا تھا، اسی طرح اور بھی بلوائی سردار اور سبائی لوگ خدمت انجام دے رہے تھے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے پیہم کئی زبردست حملے ہوئے، مگر اہل جمل نے ہر ایک حملے کو بڑی ہمت و شجاعت کے ساتھ روکا، سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور مروان بن الحکم ان حملوں کو روکنے میں زخمی ہوئے، عبدالرحمن بن عتاب، جندب بن زہیر، عبداللہ بن حکیم وغیرہ حضرات جمل کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے، سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے جسم پر ۷۲ زخم آئے تھے۔

ناقہ کی مہار یکے بعد دیگرے لوگ پکڑتے جاتے اور شہید ہوتے جاتے تھے، یہاں تک کہ سیکڑوں آدمی ناقہ کی مہار پر شہید ہو گئے، بالآخر اہل جمل نے ایسا سخت حملہ کیا کہ ناقہ کے سامنے دور تک میدان صاف کر لیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو پسپا ہوتے ہوئے دیکھ کر پھر حملہ کیا اور آگے بڑھایا، کئی مرتبہ ناقہ کے سامنے لڑنے والوں کی صفیں آگے بڑھیں اور پیچھے ہٹیں، بالآخر ایک شخص نے موقع پا کر ناقہ کے پاؤں میں تلوار ماری اور ناقہ چلا کر سینے کے بل بیٹھ گیا۔

اس وقت سیدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ ناقہ کے قریپ پہنچ گئے تھے، ناقہ کے گرتے ہی اہل جمل منتشر ہو گئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر نے حملہ کر کے ناقہ کا محاصرہ کر لیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو جو ان کے ساتھ تھے حکم دیا کہ جا کر اپنی بہن کی حفاظت کرو اور ان کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچنے پائے، قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے کجاوہ کی رسیاں کاٹ کر کجاوہ کو اٹھا کر لاشوں کے درمیان سے الگ لے جا کر رکھا اور پردہ کے لیے اس پر چادریں تان دیں۔

سیدنا علی خود تشریف لائے اور قریب پہنچ کر سلام علیک کے بعد کہا: اماں جان! آپ کا مزاج بخیر ہے؟
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا: خداتعالیٰ آپ کی ہر ایک غلطی کو معاف کرے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری بھی ہر ایک غلطی کو معاف کرے

اس کے بعد سرداران لشکر یکے بعد دیگرے سیدہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے سلام کو حاضر ہوئے، سیدنا قعقاع رضی اللہ عنہ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ کاش میں آج کے واقعہ سے بیس برس پہلے مر جاتی، سیدنا قعقاع رضی اللہ عنہ نے جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس قول کو روایت کیا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ ’’کاش میں آج سے بیس برس پہلے مر جاتا

:جنگ جمل وجہ تسمیہ

اس جنگ کا نام جنگ جمل اس لیے مشہور ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا جس جمل پر سوار تھیں وہی جمل لڑائی کا مرکز بن گیا تھا، اس لڑائی میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی طرف سے لڑنے والوں کی تعداد ۳۰ ہزار تھی، جس میں سے نو ہزار آدمی میدان جنگ میں کام آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فوج کی تعداد میدان جنگ میں بیس ہزار تھی، جس میں سے ایک ہزار ستر آدمی کام آئے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تمام مقتولین کے جنازہ کی نماز پڑھی سب کو دفن کرایا، لشکر گاہ اور میدان جنگ میں جو مال و اسباب تھا اس کے متعلق منادی کرا دی کہ جو شخص اپنے مال و اسباب کی شناخت کرے وہ لے جائے، جب شام ہو گئی تو سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کو محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ان کے بھائی نے بصرہ میں لے جا کر عبداللہ بن خلف خزاعی رضی اللہ عنہ کے مکان میں صفیہ بن الحارث بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس ٹھہرایا۔

اگلے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ بصرہ میں داخل ہوئے، تمام اہل بصرہ نے آپ کی بیعت کی، اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، چونکہ عبداللہ بن خلف اس معرکہ میں کام آ گئے تھے، لہذا عبداللہ بن خلف کی والدہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر بہت کچھ سخت سست کہا، مگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کسی بات کا جواب نہیں دیا، بعض ہمرائیوں نے کچھ گراں محسوس کیا تو آپ نے فرمایا کہ عورتیں چونکہ ضعیف ہوتی ہیں اس لیے ہم تو مشرکہ عورتوں سے بھی درگزر ہی کیا کرتے ہیں اور یہ تو مسلمان عورتیں ہیں ان کی ہر ایک بات کو برداشت کرنا چاہیے۔

سیدہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بڑی تعظیم و تکریم کا برتاؤ کیا اور ان سے پوچھا کہ آپ کو کسی قسم کی تکلیف تو نہیں ہے، پھر تمام معاملات میں ہر طرح صلح و صفائی ہو گئی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی معذرت کی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے بھی معذرت کا اظہار فرمایا۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ کا حاکم اور گورنر مقرر فرما کر محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ سامان سفر کی تیاری کریں، چنانچہ یکم ماہ رجب ۳۶ ھ کو ہر قسم کا سامان سفر درست کر کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کو رؤساء بصرہ کی چالیس عورتوں اور محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ بصرہ سے روانہ کیا، کئی کوس تک دو بطریق مشایعت ہمراہ آئے اور دوسری منزل تک سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ پہنچانے آئے، سیدہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اول مکہ معظمہ گئیں اور ماہ ذی الحجہ تک مکہ میں رہیں، وہاں حج ادا کر کے محرم ۳۷ ھ میں مدینہ منورہ تشریف لے گئیں۔

جنگ جمل میں بہت سے بنو امیہ بھی شریک تھے اور اہل جمل کی طرف سے لڑے تھے، لڑائی کے بعد مروان بن الحکم، عتبہ بن ابی سفیان، عبدالرحمن و یحییٰ برادران مروان وغیرہ تمام بنو امیہ بصرہ سے شام کی طرف چل دئیے اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس دمشق میں پہنچے، سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جو معرکہ جمل میں زخمی ہو گئے تھے، بصرہ میں ایک شخص ازدی کے یہاں پناہ گزیں ہوئے تھے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے اپنے بھائی محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو بھیج کر انہیں بلوایا اور اپنے ہمراہ مکہ کو لے کر روانہ ہوئیں۔

:فرقہ سبائیہ کی ایک اور شرارت

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو بصرہ سے روانہ کرنے کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ کے بیت المال کو کھولا اور اس میں جس قدر زر نقد تھا وہ سب ان لشکریوں میں تقسیم کر دیا جو معرکہ جمل میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زیر عَلم لڑ رہے تھے، ہر شخص کے حصہ میں پانچ پانچ سو درہم آئے، یہ روپیہ تقسیم کر کے آپ نے فرمایا کہ اگر تم ملک شام پر حملہ آور ہو کر فتح یاب ہو جاؤ تو تمہارے مقرر وظائف کے علاوہ اتناہی روپیہ اور دیا جائے گا۔

عبداللہ بن سبا کا گروہ جس کو فرقہ سبائیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، جنگ جمل کے ختم ہوتے ہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف اعلانیہ بد زبانیاں شروع کر چکا تھا اور اس بد زبانی اور طعن و تشنیع کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس حکم کو وجہ قرار دی تھی کہ آپ نے مال و اسباب کے لوٹنے سے منع کر دیا تھا، اب تک تو اس حکم کے خلاف یہ فرقہ شکایات کرتا اور لوگوں کو بھڑکاتا تھا، اب جب کہ ہر ایک لشکر کو پانچ پانچ سو درہم ملے تو اس پر بھی اعتراضات کا سلسلہ شروع کر دیا اور یہ مخالفت یہاں تک سختی و شدت کے ساتھ شروع کی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے ان کی طرف سے چشم پوشی کرنا دشوار ہو گیا، سیدنا علی نے جس قدر اس گروہ کو نصیحت و فہمائش کی، اسی قدر اس نے شوخ چشمی میں ترقی کی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ یہ لوگ ایک روز سب کے سب بصرہ سے نکل کر چل دئیے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اندیشہ ہوا کہ کہیں ملک میں جا کر فساد برپا نہ کریں، ان کے تعاقب کے لیے آپ بصرہ سے لشکر لے کر نکلے، لیکن وہ ہاتھ نہ آئے اور غائب ہو کر اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عبداللہ بن سبا نے اپنے آپ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فدائی اور طرف دار ظاہر کیا تھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی محبت کے پردہ میں اس نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے سامان مہیا کئے تھے، اب تک وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے شیدائیوں میں اپنے آپ کو شمار کرتا اور لوگوں کو بہکاتا تھا، لیکن اب فتح بصرہ اور جنگ جمل کے بعد اس سبائی گروہ نے دیکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کا اظہار کرنے سے اسلام کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے تو وہ بلا تأمل مخالفت پر آمادہ ہو گیا، یہی گروہ جو درحقیقت مسلم نما یہودیوں اور اسلام کے دشمنوں کا گروہ تھا، آئندہ چل کر گروہ خوارج کے نام سے نمودار ہونے والا ہے۔

سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سے دشمنان اسلام کی خفیہ سازشوں، خفیہ سوسائٹیوں اور خفیہ انجمنوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ آج تک دنیا میں مسلسل موجود ہے اور کوئی زمانہ ایسا نہیں بتایا جا سکتا ہے جس میں یہ دشمن اسلام خفیہ گروہ اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں مصروف نہ رہا ہو، کبھی یہ ابو لولو اور اس کے ترغیب دہندوں کی شکل میں تھا، کبھی یہ عبداللہ بن سبا اور سبائیہ گروہ کی صورت میں دیکھا گیا، کبھی اس گروہ کا نام خوارج ہوا، کبھی یہ عباسیوں اور علویوں کی سازش بنو امیہ کے خلاف کرتا تھا، کبھی یہ عباسیوں کے خلاف علویوں کی طرف سے کوشش میں مصروف تھا، کبھی اس کا نام فدائی اسماعیلیہ گروہ ہوا۔ کبھی اس نے فریمیسن کی شکل اختیار کی، (فری میسن ایک خطرناک عالمی یہودی تنظیم ہے‘ جس کا ہیڈ کوارٹر پیرس (فرانس) میں ہے۔) کبھی اس خفیہ سوسائٹی نے نیشلسٹوں اور انارکسٹوں کی شکل و صورت میں ظہور کیا، کبھی اس نے ڈپلومیسی اور پالیسی کا جامہ پہنا، کبھی شہنشائیوں اور بادشاہوں کی وزارت خارجہ کے دفتروں میں اس کو جگہ ملی۔

غرض یہ کہ دنیا میں صرف ۲۰ سال ہی ایسے گزرے ہیں، جب اس سازشی و خفیہ گروپ کو ہم معدوم وغیر معلوم پاتے ہیں اور یہ زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ تھا، اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی یہ خفیہ گروہ برابر دنیا میں موجود پایا جاتا ہے، بہرحال اس تاریخ کے پڑھنے والوں کو اور خلافت راشدہ کے نصف آخر کی تاریخ کے مطالعہ کرنے والوں کو اس دشمن اسلام خفیہ سازشیں کرنے والے گروہ کو چشم گرم سے نہیں دیکھنا چاہیے۔

فرقہ سبائیہ جو علی الاعلان اظہار مخالفت کر کے بصرہ سے فرار ہوا، اس نے بہت جلد عراق، عرب کے مختلف مقامات میں منتشر ہو کر اوباش اور واقعہ پسند لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کر کے ایک معقول جمعیت فراہم کر لی اور اول صوبہ سبحستان کا رخ کیا، مدعا ان لوگوں کا یہ تھا کہ یکے بعد دیگرے تمام ایرانی صوبوں کو باغی بنا کر خلیفۃ المسلمین کو یہ موقع حاصل نہ ہونے دیں کہ وہ مسلمانوں کی ایک مستقل سلطنت پھر قائم کر سکیں، ایرانی صوبوں میں بغاوت پیدا کرنے سے وہ چاہتے تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اطمینان اور فراغ خاطر حاصل نہ ہو اور وہ ملک شام پر حملہ آور ہونے اور فتح پانے کا موقع بھی نہ پا سکیں۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سبحستان کی طرف ان لوگوں کی توجہ کا حال سن کر عبدالرحمن بن جروطائی کو ان کے استیصال کی غرض سے روانہ کیا، ان لوگوں سے جب مقابلہ ہوا تو لڑائی میں عبدالرحمن طائی شہید ہوئے، یہ خبر سن کر ربعی بن کاس چار ہزار کی جمعیت لے کر روانہ ہوئے، انہوں نے ان اوباشوں کو شکست دے کر منتشر کر دیا، اسی عرصہ میں جنگ صفین کے لیے طرفین سے تیاریاں شروع ہو گئیں اور ان مسلم نما یہودیوں یعنی گروہ سبائیہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل ہونا ضروری سمجھا، چنانچہ وہ ہر ایک ممکن اور مناسب طریقے سے آ آ کر لشکر علی رضی اللہ عنہ میں شامل ہو گئے

:کوفہ کا دارالخلافہ بننا

جنگ جمل سے فارغ ہو کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے سب سے بڑا کام ملک شام کو قابو میں لانا اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت لینا تھا، اس کام کے لیے انہوں نے کوفہ کو اپنا قیام گاہ بنانا مناسب سمجھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں سب سے بڑی طاقت کوفیوں کی تھی اس لیے بھی کوفہ کو دارالخلافہ بنانا مناسب تھا، نیز یہ کہ مدینہ کے مقابلہ میں مدینہ کے شرفاء یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اکثر صوبوں کی حکومت پر مامور ہو ہو کر باہر چلے گئے تھے، اور ہر ایک شخص جو کسی صوبہ کا عامل ہو کر مدینہ سے روانہ ہوتا تھا وہ اپنے ہمراہ ایک جمعیت اپنے عزیزوں اور دوستوں کی ضرور لے کر جاتا تھا تاکہ وہاں رعب قائم رہے اور انتظام ملکی میں سہولت ہو، لہذا مدینہ منورہ کی جمعیت عہد عثمانی میں منتشر ہو کر کمزور ہو چکی تھی، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ میں مدینہ کو سب سے بڑی اور مرکزی طاقت بنا رکھا تھا اور اسی کی خلافت اسلامیہ کو ضرورت بھی تھی، لیکن اب وہ حالت باقی نہ رہی تھی

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے پہلے خلفاء کو میدان جنگ میں جانے اور سپہ سالاری کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی تھی، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ مجبور ہو کر گئے تھے کہ خود فوجیں لے کر میدان میں نکلیں اور ایک سپہ سالار کی حیثیت سے کام کریں، یہی مجبوری تھی کہ جو آخرکار نظام خلافت کے لیے بے حد مضر ثابت ہوئی، لہذا اس حالت میں ان کے لیے بجائے مدینہ کے کوفہ کا قیام زیادہ مناسب اور ضروری تھا، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو حاکم مقرر کر کے خود مع لشکر کوفہ کی طرف تشریف لے گئے۔

اس جگہ یہ بات بھی بتا دینا ضروری ہے کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ اور بلوائیوں میں سے ایک حصہ عبداللہ بن سبا کی کوششوں سے ماؤف ہو کر اس کا معتقد بن چکا تھا اور اس کو عبداللہ بن سبا کی جماعت کہہ سکتے تھے، لیکن اس سبائی جماعت میں چونکہ بہت سے فریب خوردہ مسلمان اپنی سادہ لوحی سے شریک تھے، لہذا اصل سبائی جماعت جو بطور تخم کے کام کرتی تھی، وہ صرف چند افراد پر مشتمل تھی اور وہ جس وقت جیسی ضرورت سمجھتی تھی اپنے گروہ میں اسی قسم کے لوگوں کو شامل کر کے انہیں میں سے کسی کو سردار بنا لیتی تھی اور جن لوگوں سے پہلے کام لے رہی تھی ان کو چھوڑ دیتی تھی، یہی سبب تھا کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قتل میں سبائی جماعت نے تمام بلوائیوں سے کام لیا اور جنگ جمل تک ان کے بڑے حصے سے کام لیتی رہی، جنگ جمل کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت اور عیب چینی کا کام جب شروع ہوا تو بلوائی لوگوں کا بڑا حصہ اس سبائی جماعت سے الگ تھا۔

یہ لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے اور اپنی کارگزاریوں اور جاں فشانیوں کی بدولت ان کو دربار خلافت میں کافی رسوخ بھی حاصل ہو گیا، کوفہ میں جب سیدنا علی نے اقامت اختیار فرمائی تو کوفیوں کے اعتبار واعتماد نے اور بھی زیادہ ترقی کی، اس طرح قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں نہ صرف پناہ گزیں بلکہ با اعتبار ہونا اور بھی باعث اس کا ہوا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو قوت و طاقت حاصل ہوئی، کیونکہ جو لوگ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینا ضروری سمجھتے تھے وہ جب ان قاتلین میں سے بعض کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں باعزت دیکھتے تھے تو باوجود اس کے کہ ان کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت تسلیم تھی، پھر بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل ہو جاتے تھے، کیونکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کے لیے عَلم مخالفت بلند کیا تھا

:امارت مصر اور محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت مصر کی حکومت سے عبداللہ بن سعد کو برطرف کر کے محمد بن ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ مصر پر قبضہ کر چکے تھے، جیسا کہ اوپر مذکور ہو چکا ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد ہی قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو مصر کا عامل بنا کر مدینہ منورہ سے روانہ کر دیا تھا،
قیس بن سعد اپنے ہمراہ صرف سات آدمیوں کو لے کر روانہ ہوئے اور مصر پہنچتے ہی محمد بن ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ کو برطرف کرکے خود وہاں کے حاکم بن گئے، مصر میں یزید بن الحراث اور مسلمہ بن مخلد وغیرہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو خون عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ کر رہے تھے، ان لوگوں نے قیس کی بیعت سے اس عذر کے ساتھ انکار کیا کہ ہم کو انتظار کرنے دو کہ خون عثمان رضی اللہ عنہ کا معاملہ کس طرح طے ہوتا ہے، جب یہ معاملہ طے ہو جائے گا اس وقت ہم بیعت کر لیں گے اور جب تک بیعت نہیں کرتے اس وقت تک خاموش ہیں، تمہاری مخالفت نہ کریں گے، قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے اخلاق اور اپنی قابلیت سے مصر میں پورے طور پر قوت حاصل کر لی اور ان کے اخلاق نے خوب ترقی حاصل کی۔

جب جنگ جمل ختم ہو گئی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کوفہ کی طرف تشریف فرما ہوئے تو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو فکر ہوئی کہ اب ہمارے اوپر حملہ آوری ہو گی، ساتھ ہی ان کو اس بات کا بھی خیال تھا کہ مصر میں قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو بخوبی قوت و قبولیت حاصل ہے اور وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بھیجے ہوئے اور ان ہی کے ہمدرد و خیر خواہ ہیں، پس سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب کوفہ کی طرف سے حملہ آور ہوں گے تو وہ ضرور قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو حکم دیں گے کہ تم دوسری طرف مصر سے فوج لے کر حملہ کرو، جب دو طرف سے ملک شام پر حملہ ہو گا تو بڑی مشکل پیش آئے گی۔

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو قدرتاً اپنے آپ کو طاقتور بنانے کی مہلت بخوبی مل گئی تھی، دوسرے انہوں نے اس مہلت سے فائدہ اٹھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا خون آلود پیراہن اور ان کی بیوی کی کٹی ہوئی انگلیاں ان کے پاس پہنچ گئی تھیں اور وہ روزانہ اس خون آلود پیرہن اور ان کی انگلیوں کو جامع دمشق میں منبر پر رکھتے تھے اور لوگ ان کو دیکھ دیکھ کر آہ و زاری کرتے تھے، شام کا صوبہ چونکہ ہر وقت قیصر روم کے حملوں کا مقام بن سکتا تھا، لہذا ملک شام میں پہلے ہی سے زبردست فوج ہمہ وقت موجود رہتی تھی، ان تمام لوگوں نے قسمیں کھائی تھیں کہ جب تک خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ نہ لے لیں گے اس وقت تک فرش پر نہ سوئیں گے اور ٹھنڈا پانی نہ پئیں گے۔

ملک عرب کے نامور اور بہادر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے اور ان کی خاطر و مدارات بجا لانے میں بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کمی نہ کرتے تھے، کام کے آدمی کو اپنے ساتھ ملانے اور اس کی دل جوئی کرنے میں ان سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ ہوتا تھا، اپنے دعوے اور مطالبے کی معقولیت ثابت کرنے اور اپنے آپ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا وارث بتا کر مظلوم ظاہر کرنے سے بھی وہ غافل نہ تھے۔

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کو ایک سال کی مہلت مل چکی تھی، جس میں سوائے ان تیاریوں کے ان کو اور کوئی کام نہ تھا، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اس عرصہ میں برابر مصروفیت در پیش رہی، اگرچہ کوفہ میں تشریف لانے کے بعد بظاہر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دائرہ حکومت میں سوائے ایک صوبہ شام کے تمام ممالک اسلامیہ شامل تھے، لیکن ان کو ان اسلامی ممالک میں وہ اثر اور وہ اقتدار حاصل نہ ہوا جو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانے میں خلیفہ اسلام کو حاصل تھا، حجاز، یمن، عراق‘ مصر، ایران وغیرہ ہر جگہ ان کے فرماں برداروں کے ساتھ ہی ساتھ ایسے لوگ بھی برابر پائے جاتے تھے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر علانیہ اعتراضات کرتے اور ان کے طرز عمل پر نکتہ چینی کرنے میں خوب سرگرم و مستعد پائے جاتے تھے، لہذا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کسی صوبہ سے پوری پوری فوجی امداد حاصل نہیں کر سکتے تھے

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حالت اس کے بالکل خلاف تھی، اگرچہ وہ صرف ملک شام پر تصرف رکھتے تھے، لیکن سارا کا سارا ملک ان کا ہم خیال وہم عنان تھا اور تمام ملک میں ان کو پوری پوری قبولیت حاصل تھی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کو معرکہ آرائی کرنی پڑے گی اس کا اندازہ ان کو پہلے ہی سے ہو چکا تھا، لہذا سب سے بڑی تدبیر جو انہوں نے پیشتر سے کی یہ تھی کہ مصر کی جانب سے حملہ آوری کے امکان کو دور کر دیا، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کی قوت و قابلیت سے بہت مرعوب تھے، ان کی خوش قسمتی سے ایک ایسی وجہ پیدا ہو گئی کہ وہ اپنے ارادے اور خواہش میں پورے کامیاب ہو گئے۔

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ مظلوم شہید ہو گئے ہیں، لہذا آپ کو مطالبہ قصاص میں میری مدد کرنی چاہیے، قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے جواباً لکھا کہ مجھ کو جہاں تک معلوم ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ قتل عثمانی رضی اللہ عنہ کی سازش میں ہرگز شریک نہ تھے، ان کے ہاتھ پر جب کہ لوگوں نے بیعت کرلی اور وہ خلیفہ مقرر ہو گئے تو پھر تم کو ان کا مقابلہ اور مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ اسی دوران میں قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کا ایک مراسلہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بمقام کوفہ پہنچا اس کے اندر لکھا تھا کہ مصر کے اندر ابھی بہت سے لوگ خاموش ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے اور کسی قسم کی سختی کو مناسب نہیں سمجھا گیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے یہ مشورہ دیا کہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو حکم دیا جائے کہ وہ سکوت اختیار کرنے والوں سے لڑیں اور ان کو بیعت کرنے کے لیے مجبور کریں، اس طرح آزاد اور خاموش نہ رہنے دیں، چنانچہ یہ حکم قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا گیا، قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے اس حکم کی تعمیل کو غیر ضروری اور مضر خیال کر کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ جو لوگ فی الحال خاموش ہیں وہ آپ کے لیے نقصان رساں نہیں ہیں، لیکن اگر ان کے ساتھ اعلان جنگ کر دیا گیا تو وہ سب کے سب آپ کے دشمنوں سے جا ملیں گے اور بے حد نقصان رساں ثابت ہوں گے، مناسب یہ ہے کہ ان کو اسی حال پر رہنے دیا جائے۔

اس خط کے پہنچنے پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مشیروں نے ان کو یقین دلایا کہ قیس بن سعد ضرور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ساز باز رکھتے ہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس بات کے ماننے میں متأمل تھے اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو مصر کے لیے ضروری سمجھتے تھے، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ قیس کی نسبت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دربار میں شبہ کیا جا رہا ہے تو انہوں نے علانیہ اپنے دربار میں قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کی تعریفیں بیان کرنی شروع کر دیں اور لوگوں سے کہنے لگے کہ قیس ہمارے طرفدار ہیں، ان کے خطوط بھی ہمارے پاس آتے رہتے ہیں وہ ضروری باتوں کی ہم کو اطلاع بھی دیتے ہیں، کبھی لوگوں کے مجمع میں ذکر کرتے کہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ نے مصر میں خون عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ بڑے بڑے احسانات کئے ہیں اور ان کو بڑی عزت کے ساتھ رکھتے ہیں۔

دمشق سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ان باتوں کا حال سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ان کے جاسوسوں نے بلا توقف لکھا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو مصر کی امارت سے فوراً معزول کر کے ان کی جگہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے مصر میں پہنچ کر اپنی امارت اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کی معزولی کا فرمان دکھایا تو قیس بہت ملول وافسردہ ہوئے اور مصر سے روانہ ہو کر مدینہ منورہ پہنچے۔

مدینہ منورہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے وہاں سے تشریف لے آنے کے بعد کسی کی حکومت نہ تھی، وہاں بعض ایسے اشخاص بھی موجود تھے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ برحق تسلیم کرتے اور ان کے ہر ایک حکم اور ہر ایک فعل کو واجب التعمیل و واجب الاقتدار یقین کرتے تھے اور ایسے لوگ بھی بکثرت موجود تھے جو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص نہ لیے جانے کے سبب سخت بے چین اور اس معاملہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ڈھیل اور درگزر کو سخت قابل اعتراض سمجھتے اور ان کو نشانہ ملامت بنانے سے ذرا نہ چوکتے تھے، قیس بن سعد رضی اللہ عنہ جب مدینہ پہنچے تو ان کے تعاقب ہی میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مروان بن الحکم کو روانہ کیا کہ جس طرح ممکن ہو قیس بن سعد کو ترغیب دے کر لے آؤ، مروان بن الحکم نے قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو اول سمجھایا، جب وہ نہ مانے تو تنگ کرنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ دق ہو کر مدینہ سے روانہ ہوئے اور کوفہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئے وہاں تمام حالات زبانی سنائے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مطمئن ہو کر ان کو اپنی مصاحبت میں رکھا۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ خبر سن کر مروان کو لکھا کہ اگر تو ایک لاکھ جنگ جو لشکر سے علی رضی اللہ عنہ کی مدد کرتا تو وہ آسان تھا بمقابلہ اس کے قیس علی رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے۔ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے مصر پہنچ کر ان لوگوں کو جو سکوت کی حالت میں تھے اعلان دے دیا کہ یا تو تم لوگ ہماری اطاعت قبول کرو اور امیر المومنین سیدنا علی کی بیعت میں داخل ہو جاؤ ورنہ ہمارے ملک سے نکل جاؤ، انہوں نے کہا ہمارے ساتھ جنگ کرنے اور سختی برتنے میں جلدی نہ فرمائیے زیادہ نہیں تو چند روز کی مہلت دیجئے تاکہ ہم اپنے مآل کار پر غور کر لیں۔
محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم کو قطعاً مہلت نہیں دی جا سکتی

انہوں نے اس نئے عامل سے یہ جواب سن کر فوراً اپنی حفاظت کا معقول انتظام کر لیا اور مدافعت پر آمادہ ہو بیٹھے، محمد بن ابی بکر ان لوگوں کے ساتھ صفین کے ختم ہونے کے بعد تک الجھے رہے اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مصر کی جانب سے بالکل بے فکر ہو کر جنگ صفین کی تیاریوں میں مصروف ہوئے

:سیدنا عمرو بن العاص، سیدنا معاویہ کے پاس

سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے خلافت فاروقی میں مصر کو فتح کر کے ممالک اسلامیہ میں شامل کیا تھا، جب بلوائیوں نے مدینہ میں داخل ہو کر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کیا تھا تو یہ مدینہ میں موجود تھے، بلوائیوں کے نا مناسب طرز عمل اور اس فساد کے نتیجے پر غور کر کے انہوں نے یہی مناسب سمجھا تھا کہ مدینہ سے نکل جائیں، چنانچہ وہ اپنے دونوں بیٹوں عبداللہ اور محمد کو ہمراہ لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے اور بیت المقدس میں جا کر مقیم ہو گئے، وہاں نہایت خاموشی کے ساتھ حالات پر غور کرتے اور واقعات کی خبریں سنتے رہے

اول سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حال سنا، پھر خبر پہنچی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت ہو گئی ہے، مگر انہوں نے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے میں تامل فرمایا ہے، پھر سنا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو ہمراہ لے کر طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر بصرہ کی جانب روانہ ہوئے ہیں اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بیعت سے انکار کر کے خون عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ کیا ہے، پھر سنا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی بصرہ کی جانب روانہ ہو گئے، اس کے بعد سنا کہ جنگ جمل میں سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ دونوں شہید ہو گئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ بصرہ پر قابض و متصرف ہو کر اور وہاں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو عامل مقرر کر کے کوفہ میں تشریف لے آئے اور ملک شام پر حملہ کی تیاری فرما رہے ہیں، نیز امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی مقابلہ پر آمادہ و مستعد ہو رہے ہیں۔

یہ سن کر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں بیٹوں سے مشورہ لیا اور کہا کہ اب موقع آ گیا ہے کہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلا جاؤں اور وہاں اس مسئلہ خلافت میں دخیل ہو کر اس کو طے کرا دوں، جنگ جمل سے پہلے مدعیان خلافت چار شخص تھے، اول سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہ وہ خلیفہ منتخب ہو ہی گئے تھے اور لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی، دوم سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کہ بصرہ والے ان کے حامی و مددگار تھے اور سوم سیدنا زبیر اور کوفہ میں ان سے عقیدت رکھنے اور ان کو مستحق خلافت سمجھنے والوں کی تعداد زیادہ تھی، چہارم سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور یہ ملک شام کے گورنر تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے ذمہ دارانہ عہدوں پر فائز اور عرصہ دراز سے شام کی حکومت پر مامور تھے، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے رشتہ دار اور وارث ہونے کی وجہ سے ان کے خون کا دعویٰ کرتے اور قصاص چاہتے تھے۔

اب سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد صرف دو ہی شخص باقی رہ گئے تھے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ صرف ان باغیوں کے بنائے ہوئے خلیفہ ہیں جنہوں نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا، اکثر جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہ نے جو مدینہ میں موجود تھے سیدنا علی کی بیعت سے انکار کیا، باقی جلیل القدر صحابہ کی ایک بڑی تعداد مدینہ سے باہر تھی، حالانکہ اس سے پہلے بیعت خلافت میں ان کی شرکت ضروری سمجھی جاتی رہی ہے، اس انتخاب میں ان سے مشورہ نہیں لیا گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر میں پناہ دے رکھی ہے۔

اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خدمات اسلام میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قرب میں، رشتے میں، سابق الاسلام ہونے میں ہرگز ہرگز میرا مقابلہ نہیں کر سکتے

غرض دونوں ایک دوسرے کے مقابل دعاوی رکھتے تھے، سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے اب اپنے آپ کو بے تعلق رکھنا مناسب نہ سمجھا، عبداللہ بن عمرو نے باپ کو مشورہ دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ، عثمان غنی رضی اللہ عنہ سب آخر وقت تک آپ سے خوش رہے، لہذا اب مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ بالکل خاموش اور گوشہ نشین رہیں یہاں تک کہ لوگوں کا کسی ایک شخص پر اتفاق و اجماع ہو جائے، دوسرے بیٹے محمد بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ عرب کے عمائدین و با اثر اور صاحب الرائے لوگوں میں سے ہیں، جب تک آپ دخل نہ دیں گے معاملہ کیسے طے ہو سکتا ہے؟

عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے دونوں بیٹوں کی تقریریں سن کر کہا کہ عبداللہ کے مشورہ میں دین کی بھلائی اور محمد کے مشورہ میں دنیا کی بہتری ہے، اس کے بعد کچھ سوچ سمجھ کر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیت المقدس سے روانہ ہو کر دمشق میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے، انہوں نے ان کے تشریف لانے کو بہت ہی غنیمت سمجھا انہوں نے جاتے ہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مظلوم خلیفہ کا بدلہ لینا ضروری ہے اور آپ اس مطالبہ میں حق پر ہیں، ابتداً امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے احتیاط کے ساتھ ملتے رہے، لیکن پھر ان پر پورے طور پر اعتماد کر کے ان کو اپنی حکومت کا رکن رکین اور مشیرو وزیر بنا لیا۔

سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کا خون آلود قمیص اور سید نائلہ کی انگلیاں روزانہ لوگوں کے سامنے لانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس طرح ان کا جوش بتدریج کم ہونے لگے گا، مناسب یہ ہے کہ ان چیزوں کی نمائش کبھی کبھی خاص خاص موقعوں پر کی جائے، اس رائے کو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پسند فرمایا اور وہ گریہ و زاری جو روزانہ قمیص کو دیکھ دیکھ کر لوگ کیا کرتے تھے موقوف ہوئی۔

عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ بھی سمجھایا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ درحقیقت واقعہ جمل کے بعد اپنی فوجی طاقت کو بہت کچھ کمزور بنا چکے ہیں، کیونکہ جنگ جمل میں اہل بصرہ کے آٹھ نو ہزار آدمی مارے گئے، جن میں بڑے بڑے نامی سردار تھے، اب جو اہل بصرہ ان کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں وہ اہل کوفہ کے ساتھ مل کر لڑائی میں پوری جانفشانی نہیں دکھائیں گے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں سارے کے سارے سپاہی یک دل اور آپس میں پورے طور پر متفق نہیں ہیں، یہ اندازہ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا غلط نہ تھا اور اس حقیقت سے سبائی فرقہ بھی نا آشنا نہ تھا

:محاربات صفین کا دیباچہ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں تشریف لا کر ملک شام پر چڑھائی کی تیاری شروع کی، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اپنا لشکر لے کر بصرہ سے روانہ ہو گئے، اس خبر کے سنتے ہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی کوفہ میں ابومسعود انصاری کو اپنا قائم مقام بنا کر مقام نخیلہ کی طرف تشریف لے گئے اور ترتیب لشکر میں مصروف ہو گئے، یہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی اہل بصرہ کا لشکر لیے ہوئے آ پہنچے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہاں زیاد بن نصر حارثی کو آٹھ ہزار فوج دے کر بطور مقدمۃ الجیش آگے روانہ کیا، اس کے بعد شریح بن ہانی کو چار ہزار کی جمعیت دے کر زیاد کے پیچھے بھیجا اور خود نخیلہ سے کوچ کر کے مدائن تشریف لائے، مدائن میں سعد بن مسعود ثقفی کو عامل مقرر کر کے معقل بن قیس کو تین ہزار لشکر کے ساتھ روانہ کیا اور اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ مدائن سے روانہ ہو کر رقہ کی طرف چلے، رقہ کے قریب دریائے فرات کو عبور کیا اور یہاں زیاد، شریح، معقل وغیرہ تمام سرداروں کا لشکر مجتمع ہو گیا

ادھر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ لشکر عظیم لیے ہوئے ملک شام کے قصد سے آرہے ہیں تو انہوں نے ابو الاعور سلمی کو ایک دستہ فوج دے کر بطور مقدمۃ الجیش روانہ کیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دریائے فرات کو عبور کرنے کے بعد زیادہ و شریح دونوں سرداروں کو پھر بطور مقدمۃ الجیش آگے روانہ کیا، زیاد، شریح کو حدود شام میں داخل ہو کر معلوم ہوا کہ ابو الاعور السلمی لشکر شام لیے ہوئے آ رہا ہے، انہوں نے فوراً سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اشتر کو روانہ کیا اور حکم دیا کہ تم جب زیاد وشریح تک پہنچنا تو تمام لشکر کی سرداری اپنے ہاتھ میں لے کر زیاد و شریح کو میمنہ و میسرہ کی سرداری پر متعین کر دینا اور جب تک لشکرِ شام تم پر حملہ آور نہ ہو اس پر حملہ آور نہ ہونا

اشتر نے پہنچ کر تمام لشکر کی کمان اپنے ہاتھ میں لے کر زیاد و شریح کو میمنہ و میسرہ سپرد کیا ادھر ابوالاعور بھی مقابل آ کر خیمہ زن ہوا، صبح سے شام تک دونوں لشکر خاموش ایک دوسرے کے مقابل خیمہ زن رہے، لیکن شام کے وقت ابوالاعور نے حملہ کیا، تھوڑی دیر لڑ کر فریقین ایک دوسرے سے جدا ہو گئے، اگلے دن صبح کو ابوالاعور صف لشکر سے نکل کر میدان میں آیا، ادھر سے ہاشم بن عتبہ نے نکل کر مقابلہ کیا، عصر کے وقت تک دونوں لڑتے رہے، پھر ایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنے اپنے لشکر کو واپس آ رہے تھے کہ اشتر نے اپنی فوج کو حملہ کا حکم دیا، ابوالاعور نے بھی اپنے آدمیوں کو حملہ آور کیا، شام تک کشت و خون جاری رہا، رات کی تاریکی نے حائل ہو کر لڑائی کو ملتوی کیا۔ فریقین اپنے اپنے خیموں میں رات بسر کرنے کے لیے چلے گئے

اگلے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی پہنچ گئے اور معلوم ہوا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اپنا لشکر لیے ہوئے قریب آ پہنچے ہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لڑائی اور حملہ آوری موقف کرا کر اشتر کو حکم دیا کہ تم بہت جلد دریائے فرات کے ساحل پر پہنچ کر پانی پر قبضہ کر لو، اشتر جب فرات کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پہلے ہی آ کر پانی پر قبضہ کر لیا ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے صعصعہ بن صوحان کو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام دے کر بھیجا کہ ہم تم سے اس وقت تک نہ لڑتے جب تک کہ تمہارے عذرات نہ سن لیتے اور بذریعہ تبلیغ حق تم پر پوری حجت نہ کر لیتے، لیکن تمہارے آدمیوں نے شتاب زدگی کر کے لڑائی چھیڑ دی، اب ہم مناسب یہی سمجھتے ہیں کہ تم کو اول راہ حق کی دعوت دیں اور جب تک حجت پوری نہ کر لیں لڑائی شروع نہ کریں، مگر افسوس ہے کہ تم نے فرات پر قبضہ کر کے ہمارے لیے پانی بند کر دیا، لوگوں کا پیاس سے برا حال ہو رہا ہے، تم اپنے ہمرائیوں کو حکم دو کہ پانی لینے سے ہم کو نہ روکیں یہاں تک کہ نزاعی امور کا فیصلہ ہو جائے اور اگر تم یہ چاہتے ہو کہ جس غرض سے ہم یہاں آئے ہیں اس کو فراموش کر کے پانی پر لڑیں اور جو غالب ہو وہی پانی پی سکے تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسی وقت اپنے مشیروں کو طلب کر کے یہ مسئلہ ان کے سامنے پیش کیا، عبداللہ بن سعد سابق گورنر مصر اور ولید بن عقبہ نے کہا کہ ہم کو پانی سے قبضہ نہیں اٹھانا چاہیے اور ان کو پیاسا ہی مارنا چاہیے کیونکہ ان لوگوں نے بھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا پانی بند کر دیا تھا اور ان کو پیاسا شہید کیا تھا، عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف رائے دی کہ پانی ہرگز بند نہ کیا جائے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کو پیاس کی تکلیف نہ دی جائے، اسی مجلس میں صعصعہ اور ولید بن عقبہ کے درمیان ذرا سخت گفتگو ہوئی اور بڑھتے بڑھتے گالی گلوچ تک نوبت پہنچ گئی، صعصعہ وہاں سے ناراض اٹھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ وہ ہم کو پانی لینے کی اجازت نہیں دیتے، سیدنا علی نے اشعث بن قیس کو سواروں کا دستہ دے کر بھیجا کہ زبردستی پانی پر قبضہ کرو، ادھر سے ابوالاعور سلمی نے مقابلہ کی تیاری کی اور طرفین سے تیر بازی بھی ہوئی، نیزے بھی چلے۔ تلواریں بھی چمکیں، خون بھی بہا اور سر بھی جسم سے جدا ہوئے، لیکن یہ فیصلہ ابھی نہ ہونے پایا تھا کہ پانی پر کون فریق قابض و متصرف رہ سکے گا، اتنے میں سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو سمجھایا کہ اگر تم نے پانی کے اوپر سے اپنا قبضہ نہ اٹھایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر کو پانی کی تکلیف پہنچی اور وہ پیاس کے مارے تڑپنے لگے تو خود تمہارے لشکر کے بہت سے آدمیوں کا جذبہ رحم متحرک ہوگا اور وہ تمہارا ساتھ چھوڑ چھوڑ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں جا ملیں گے اور تم کو قساوت قلبی اور ظلم سے متہم کر کے سیدنا علی کی طرف سے لڑیں گے، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اسی وقت اعلان کرا دیا کہ فریق مخالف کو پانی سے نہ روکا جائے اور پانی کی تکلیف نہ دی جائے، اسی طرح یہ ہنگامہ بھی مشتعل ہو کر جلد فرو ہو گیا
( پانی پر جھگڑے کی یہ روایت قابل اعتماد نظر نہیں آتی، دریائے فرات کوئی تالاب نہیں تھا کہ اس پر ایک فریق قابض ہو جاتا تو دوسرے کے لیے گنجائش نہ ہی رہتی، یہ ہزارہا میل لمبا ہے اور ہر فریق اپنی جانب سے بلا توقف پانی لے سکتا تھا۔

اس کے بعد دو دن تک دونوں لشکر بلا جدال و قتال خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل پڑے رہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس حجاز و یمن اور عرب کے مختلف حصوں، نیز ہمدان وغیرہ ایرانی صوبوں سے بھی جمیعتیں آ گئی تھیں اور کل تعداد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی نوے ہزار تھی۔

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس کل تعداد اسی ہزار آدمیوں کی تھی۔ ( فریقن کی اسی تعداد پر مورخین کا اتفاق نہیں ہے، بعض نے یہی اور بعض نے اس سے مختلف تعداد لکھی ہے۔)
ان دونوں لشکروں کے سپہ سالار اعظم سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تھے، فوج کے بڑے بڑے حصوں کی سرداریاں اس طرح تقسیم ہوئی تھیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں سواران کوفہ پر اشتر، سواران بصرہ پر سہل بن حنیف، کوفہ کی پیادہ فوج پر سیدنا عمار بن یاسر، بصرہ کی پیادہ فوج پر قیس بن سعد بن عبادہ افسر تھے اور ہاشم بن عتبہ کو لشکر کا عَلم دیا گیا تھا، باقی قبائل اور صوبوں کی جماعت کے اپنے اپنے الگ الگ افسر اور عَلم تھے۔

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں میمنہ کی سرداری ذوالکلاح حمیری کو، میسرہ کی حبیب بن مسلمہ کو، مقدمہ کی ابوالاعور سلمی کو سپرد ہوئی تھی، سوارانِ دمشق پر عمروبن العاص رضی اللہ عنہ، پیادہ فوج پر مسلم بن عقبہ سردار مقرر کئے گئے تھے، ان کے علاوہ اور چھوٹے چھوٹے حصوں پر عبدالرحمن بن خالد، عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، بشیر بن مالک کندی وغیرہ افسر مقرر ہوئے تھے۔

دونوں کی خاموشی کے بعد تیسرے دن یکم ذی الحجہ ۳۶ ھ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بشیر بن عمروبن محصن انصاری رضی اللہ عنہ، سعید بن قیس اور شبث بن ربعی تمیمی کا ایک وفد سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا کہ ان کو سمجھائیں اور اطاعت قبول کرنے پر آمادہ کریں، یہ لوگ جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے تو اول بشیر بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:* *اے معاویہ رضی اللہ عنہ! تم مسلمانوں کی جماعت میں تفریق پیدا نہ کرو اور خوں ریزی کا موقع آپس میں نہ آنے دو۔

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ تم نے اپنے دوست علی رضی اللہ عنہ کو بھی نصیحت کی یا نہیں، بشیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ وہ سابق بالاسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے خلافت و امارت کے زیادہ حق دار ہیں، تم کو چاہیے کہ ان کی بیعت اختیار کر لو، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ ہم خون عثمان رضی اللہ عنہ کا مطالبہ چھوڑ دیں، شبث بن ربعی نے کہا اے معاویہ! خون عثمان رضی اللہ عنہ کے مطالبہ کے متعلق ہم تمہارے اصل مدعا کو خوب سمجھتے ہیں، تم نے اسی لیے عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کرنے میں تاخیر کی تھی کہ وہ شہید ہو جائیں اور تم ان کے خون کے مطالبہ کو بہانہ بنا کر خلافت و امارت کا دعویٰ کرو، اے معاویہ رضی اللہ عنہ! تم اپنے خام خیال سے درگزر کرو اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جھگڑا نہ کرو، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کا سختی سے جواب دیا، شبث نے بھی ویسا ہی ترکی بترکی جواب دیا اور یہ سفارت بلا نتیجہ واپس چلی آئی۔

جنگ صفین کا پہلا حصہ

جب صلح کی کوشش ناکام رہی تو مجبوراً لڑائی شروع ہوئی مگر چونکہ دونوں طرف مسلمان اور ایک دوسرے کے عزیز دوست تھے، لہذا دونوں میں جدال و قتال کا ویسا جوش نہ تھا جیسا کفار کے مقابلہ میں ہوا کرتا تھا، عام طور پر لوگ یہی چاہتے تھے کہ یہ لڑائی ٹل جائے اور مصالحت ہو جائے
لڑائی کی صورت یہ تھی کہ ایک ایک آدمی طرفین سے میدان میں نکلتا اور ایک دوسرے سے لڑتا، باقی لشکر دونوں طرف سے اس لڑائی کا تماشا دیکھتا، چند روز تک تو روزانہ اس جنگ مبارزہ ہی کا سلسلہ جاری رہا، پھر لڑائی نے کسی قدر ترقی اور اشتعال کی صورت اختیار کی تو صرف یہیں تک محدود رہی کہ طرفین سے ایک ایک سردار اپنی اپنی محدود جماعت لے کر نکلتا اور اس طرح ایک جماعت کی دوسری جماعت سے معرکہ آرائی ہوتی رہی، باقی لشکر اپنی جگہ خاموش اور تماشائی رہتا، یہ سلسلہ ایک مہینہ تک جاری رہا، دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک مہینے تک دونوں لشکر نے آئندہ بڑی خوں ریز جنگ کے لیے آپس میں جنگی مشق کو جاری رکھا۔

اس ایک مہینے کی معرکہ آرائیوں کو جنگ صفین کا پہلا حصہ سمجھنا چاہیے، ماہ ذی الحجہ ختم ہو کر جب محرم کا مہینہ شروع ہوا تو یکم محرم ۳۷ ھ سے آخر محرم ۳۷ ھ تک ایک میہنے کے لیے طرفین نے لڑائی کی بالکل تعطیل کر دی، اس ایک مہینے میں دونوں طرف کی فوجیں بالکل خاموش رہیں، مصالحت کی گفتگو اور سلسلہ جنبانی پھر جاری ہو گئی

اس جگہ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ محرم کے اس ایک مہینے میں مسلمانوں کی دونوں فوجوں کا ایک دوسرے کے مقابلہ بلا زدو خورد خیمہ زن ہونا ضرور یہ نتیجے پیدا کر دیتا اور یہ خیال خود بخود طاقت پیدا کر لیتا کہ جنگ سے صلح بہرحال بہتر ہے اور مسلمانوں کو ہرگز آپس میں نہیں لڑنا چاہیے، جب تمام لشکری لوگوں میں یہ کرہ ہوائی پیدا ہو جاتا تو سرداران لشکر کو بھی مجبوراً صلح پر رضا مند ہونا پڑتا، لیکن اس سکون اور خاموشی کے ایام میں سبائی جماعت جو شریک لشکر تھی اور جس کا کوئی جداگانہ وجود نہ تھا بڑی سرگرمی سے مصروف کار رہی، اس نے اپنی انتہائی کوشش اس کام میں صرف کر دی کہ لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت و رعایت مطلق پیدا نہ ہو سکے اور نفرت و عداوت ترقی کرے،* *سردارن لشکر کی حالت یہ تھی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کسی طرح خلافت سے دست بردار نہیں ہو سکتے وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ اور بلوائی لوگوں کو بھی سزا نہ دے سکتے تھے، کیونکہ مالک اشتر جیسے زبردست سپہ سالار، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ جیسے گورنر اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جیسے محترم صحابی رضی اللہ عنہ کو سزا دینا اور تمام کوفی و مصری لشکر کو باغی اور دشمن بنا لینا کوئی آسان کام نہ تھا، نیز یہ کہ قاتلین اور سازش قتل کے شرکاء کا تعین شہادتوں کے ذریعہ امرمشتبہ کی حد سے آگے بڑھ کر یقین کے درجہ تک نہیں پہنچتا تھا، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں وہ یقینا ہر طرح مستحق خلافت تھے۔

ادھر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو مکہ کے رئیس اور احد و احزاب کی عظیم الشان فوجوں کے سپہ سالار اعظم، ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہونے کے علاوہ ابتدائے خلافت راشدہ سے اب تک رومیوں کے خلاف کارہائے نمایاں انجام دینے والے کمانڈر ملک شام کا نہایت عمدہ انتظام کرنے والے منظم ہونے کی حیثیت سے امیر عرب سمجھتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ محترمہ کے بھائی اور کاتب وحی ہونے کا شرف بھی رکھتے تھے، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہم جد اور وارث ہونے کی حیثیت سے خون عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص طلب کرنے میں وہ اپنے آپ کو سراسر حق و راستی پر یقین کئے ہوئے تھے، اتنے بڑے قتل کو مشتبہ قرار دے کر ٹال دینا اور کسی کو بھی زیر قصاص نہ لانا ان کے نزدیک جیتی مکھی نگلنا تھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی توجیہہ نہ ان کی سمجھ میں آتی تھی اور وہ نہ سمجھنا چاہتے تھے، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کے خروج اور مدینہ کے کئی اکابر صحابہ رضی اللہ عنہ کی بیعت علی رضی اللہ عنہ سے پرہیز کرنے اور عمروبن العاص وغیرہ حضرات کے تائید کرنے سے ان کے ارادے اور یقین میں اور بھی زیادہ قوت پیدا ہو گئی تھی۔

طرفین اپنی اپنی باتوں اور ارادوں پر صحیح نظر ڈالے اور اپنی خواہشوں اور امیدوں کے فریب سے بھی کلی بچ جانے کے قابل ہوجاتے اگر ان کے ساتھی اور لشکری خود صحیح راستے کو اختیار کر کے انہیں مجبور کر دیتے اور اس کے لیے یہ محرم یعنی تعطیل کا زمانہ بہترین موقع تھا، لیکن سبائی جماعت اپنی شرارت پاشی کے کام میں خوب مستعد تھی اور وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو گئی کہ مسلمان مصالحت کی طرف نتیجہ خیز طور پر متوجہ نہ ہو سکے۔

:ایام تعطیل میں صلح کی دوسری کوشش

لڑائی کو بند کرنے کے بعد ۳۷ ھ کی کسی تاریخ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک سفارت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس روانہ کی تاکہ پھر صلح و مصالحت کی سلسلہ جنبائی کریں، اس سفارت میں عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ، زید بن قیس زیاد ابن حفصہ شبث بن ربعی شامل تھے، شبث بن ربعی پہلی مرتبہ بھی گئے اور ان ہی سے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی سخت کلامی تک نوبت پہنچ گئی تھی، اس مرتبہ پھر شبث کا سفارت میں شامل ہونا خطرے سے خالی نہ تھا، اس وفد نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا فرض ادا کیا۔

اول عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے حمدو ثنا کے بعد کہا کہ اے معاویہ رضی اللہ عنہ! سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت اختیار کر لو تمہارے بیعت کر لینے سے مسلمانوں میں اتفاق پیدا ہو جائے گا، تمہارے اور تمہارے دوستوں کے سوا اور کوئی بیعت سے منحرف نہیں ہے، اگر تم نے مخالفت پر اصرار کیا تو ممکن ہے کہ وہی صورت پیش آئے جو اصحاب جمل کو پیش آئی، معاویہ رضی اللہ عنہ نے قطع کلام کر کے کہا کہ اے عدی! تم صلح کرانے آئے ہو یا لڑنے، کیا تم مجھ کو اصحاب جمل کا واقعہ یاد دلا کر لڑائی سے ڈرانا چاہتے ہو، تم نہیں جانتے کہ میں حرب کا پوتا ہوں،؟ مجھے لڑائی کا مطلق خوف نہیں ہے، میں جانتا ہوں کہ تم بھی قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ میں سے ہو، اللہ تعالی تم کو بھی قتل کرائے گا۔

اس کے بعد یزید بن قیس بولے کہ ہم لوگ سفیر ہو کر آئے ہیں، ہمارا یہ منصب نہیں کہ تم کو نصیحت کریں، لیکن ہم کو اس بات کی ضرور کوشش کرنی چاہیے کہ مسلمانوں میں اتفاق پیدا ہو اور نا اتفاقی دور ہو، یہ کہہ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل اور ان کا مستحق خلافت ہونا بیان کیا، اس کے جواب میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم ہم کو جماعت کی طرف کیا بلاتے ہو؟ جماعت ہمارے ساتھ بھی ہے، ہم تمہارے دوست کو مستحق خلافت نہیں سمجھتے کیوں کہ انہوں نے ہمارے خلیفہ کو قتل کیا اور اس کے قاتلین کو پناہ دی، صلح تو اس وقت ہو سکتی ہے جب کہ وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو ہمارے سپرد کر دیں۔

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یہیں تک کہنے پائے تھے کہ شبث بن ربعی فوراً بول اٹھے کہ اے معاویہ رضی اللہ عنہ! کیا تو عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو قتل کر دے گا؟ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ مجھ کو عمار رضی اللہ عنہ کے قتل میں کونسی چیز منع کر سکتی ہے؟ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے غلام کے عوض قتل کر ڈالوں گا، شبث بن ربعی نے کہا کہ تو اس کے قتل پر ہرگز قادر نہ ہو سکے گا جب تک کہ زمین تجھ پر تنگ نہ ہو جائے گی، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس سے پہلے تو زمین تجھ پر تنگ ہو جائے گی، اس قسم کی سخت کلامی کے بعد یہ وفد بھی بلا نتیجہ واپس چلا آیا۔

:سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تاریخی تقریر

اس کے بعد سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حبیب بن مسلمہ، شرحبیل بن السمط، معن بن یزید کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بطور سفیر روانہ کیا۔

حبیب بن مسلمہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ عثمان خلیفہ برحق تھے اور کتاب و سنت کے موافق حکم دیتے تھے، ان کی زندگی تم کو ناگوار گزری اور تم نے اس کو قتل کر ڈالا، اگر تم نے ان کو قتل نہیں کیا تو ان کے قاتلین کو ہمارے سپرد کر دو، پھر خلافت سے دست بردار ہو جاؤ، اس کے بعد مسلمان جس کو چاہیں گے اپنا خلیفہ اور امیر مقرر کر لیں گے۔

یہ کلام سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا اور انہوں نے فرمایا کہ تو خاموش ہو جا، امارت و خلافت کے متعلق ایسی تقریر کرنے کا تجھ کو کوئی حق نہیں ہے،* *حبیب بن مسلمہ نے کہا کہ تم مجھ کو ایسی حالت میں دیکھ لو گے جو تم کو ناگوار ہو گی، مدعایہ تھا کہ تلوار کے ذریعہ ہم فیصلہ کر لیں گے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جا جو تیرا جی چاہے کرو۔ یہ کہہ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور حمدو ثناء کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبعوث ہونے کا ذکر کیا، پھر خلافت شیخین اور ان کے خصائل پسندیدہ کا ذکر کر کے فرمایا کہ ہم نے ان دونوں کو اپنے فرائض عمدگی سے ادا کرتے ہوئے پایا، لہذا ہم نے باوجود اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے رشتہ میں قریب تر تھے، ان کی خلافت میں کوئی دست اندازی نہیں کی، پھر لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا، ان کا طرز عمل ایسا تھا کہ لوگ ان سے ناراض ہو گئے اور انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کر ڈالا، اس کے بعد لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کرنے کی درخواست کی، میں نے اس درخواست کو قبول کر لیا، بیعت کے بعد طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ نے عہد شکنی کی اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے میری مخالفت کی، حالانکہ وہ میری طرح سابق بالاسلام نہیں، مجھ کو تعجب ہے کہ تم لوگ کس طرح اس کے مطیع ہو گئے حالانکہ میں کتاب و سنت اور ارکان دین کی طرف بلاتا، احیاء حق اور ابطال کی باطل کی کوشش کرتا ہوں؟

شرحبیل بن السمط نے تقریر سننے کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا آپ اس امر کی شہادت نہیں دیتے کہ عثمان مظلوم شہید ہوئے۔ سیدنا علی نے جواب دیا کہ میں نہ عثمان کو مظلوم کہتا ہوں نہ ظالم۔ یہ سن کر تینوں سفیر یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ جو شخص عثمان کو مظلوم نہیں کہتا ہم اس سے بیزار ہیں اور ان لوگوں کو نصیحت کرنا نہ کرنا مساوی ہے ان پر کوئی اثر نہ ہو گا۔ اس کے بعد مصالحت کی کوئی کوشش جو قابل تذکرہ ہو عمل میں نہیں آئی۔

:جنگ صفین کا ایک ہفتہ

ماہ محرم ۳۷ھ کی آخری تاریخ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کو حکمِ عام دے دیا کہ کل یکم ماہ صفر سے فیصلہ کن جنگ شروع ہو گی، ساتھ ہی یہ بھی اعلان کر دیا کہ حریف جب تمہارے سامنے سے پسپا ہو تو بھاگنے والوں کا نہ تو تعاقب کیا جائے، نہ ان کو قتل کیا جائے، زخمیوں کا مال نہ چھینا جائے، کسی لاش کو مثلہ نہ کیا جائے، عورتیں اگرچہ گالیاں بھی دیں ان پر کوئی زیادتی نہ کی جائے۔ اسی قسم کے احکام امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے لشکر میں جاری کر دیئے

یکم صفر کی صبح سے لڑائی شروع ہوئی، اس روز اہل کوفہ نے اشتر کی سرداری میں اور اہل شام نے حبیب بن مسلمہ کی سرداری میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا، صبح سے شام تک برابر ہنگامۂ کارزار گرم رہا، مگر کوئی فیصلہ شکست و فتح کی شکل میں نمودار نہ ہو سکا۔

دوسرے دن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہاشم بن عتبہ سوار و پیادہ لشکر لے کر نکلے اور اہل شام کی طرف سے ابو الاعور سلمی نے مقابلہ کیا، اس روز بھی شام تک بڑی خون ریز لڑائی جاری رہی اور کوئی فیصلہ نہ ہوا، تیسرے روز سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ لشکروں کو لے کر مقابل ہوئے، یہ لڑائی سابقہ دو دن کی لڑائیوں سے بھی زیادہ سخت و شدید تھی، سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے شام کے قریب آخر میں ایسا سخت حملہ کیا کہ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو کسی قدر پسپا ہوجانا پڑا تاہم آج بھی کوئی فیصلہ نہ ہوا، چوتھے روز سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ان کے صاحبزادے محمد بن الحنفیہ لشکر لے کر نکلے، اس روز بھی خوب زور شور سے لڑائی ہوئی، جب شام ہونے کو آئی تو عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے محمد بن الحنفیہ کو صف لشکر سے جدا ہو کر مبارزہ کی لڑائی کے لیے للکارا، محمد بن الحنفیہ جوش شجاعت میں مقابلہ کے لیے نکلے لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے گھوڑا دوڑا کر اور قریب جا کر محمد بن الحنفیہ کو واپس لوٹا لیا، ان کے واپس ہونے کے بعد عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی لشکر شام کی طرف واپس چلے آئے۔

پانچویں روز سیدنا علی کی طرف سے سیدنا عبداللہ بن عباس اور سیدنا معاویہ کی طرف سے ولید بن عقبہ نکلے اور صبح سے شام تک بڑی سخت لڑائی جاری رہی، چھٹے روز ادھر سے مالک اشتر اور ادھر سے حبیب بن مسلمہ دوبارہ نبرد آزما ہوئے، اس روز بھی شام تک کی زور آزمائی و خوں ریزی نے کوئی نتیجہ پیدا نہیں کیا، ساتویں روز سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بذات خود لشکر کو لڑائی پر آمادہ کیا، اس روز بھی اگرچہ لڑائی سابقہ ایام کی نسبت زیادہ سخت ہوئی، مگر دونوں فریق میدان میں برابر کا جوڑ ثابت ہوئے۔

اس جنگِ ہفت روزہ میں ہر روز دونوں طرف سے نئے نئے سپہ سالار مقرر ہو ہو کر اپنی اپنی جنگی قابلیت کا اظہار کرتے رہے، چوں کہ دونوں لشکروں کی تعداد بھی نوے اور اسی ہزار یعنی قریباً برابر ہی تھی اور طرفین کے لڑنے والوں میں بھی ایک ہی حیثیت اور ایک ہی سی طاقت و شجاعت والے لوگ تھے، لہذا کسی کو نہ فتح حاصل ہوئی نہ شکست، البتہ اس بات کا اظہار ہوتا رہا کہ طرفین میں لڑائی کے لیے کافی جوش اور اظہار شجاعت کا کافی شوق ہے، یہ ہفتہ اسلام کے لیے بڑا ہی منحوس تھا کہ مسلمانوں کی تلواریں پوری تیزی کے ساتھ مسلمانوں کی گردنیں کاٹ رہی تھیں اور دشمنان اسلام اطمینان کے ساتھ مصروف تماشا تھے، لیکن اس ہفتہ سے بھی زیادہ منحوس دو دن اور آنے والے تھے

:جنگ صفین کے آخری دو دن

پورے ایک ہفتہ کی سخت زور آزمائیوں کے بعد ۸ صفر ۳۷ ھ کو جمعرات کے روز دونوں لشکر آخری اور فیصلہ کن معرکہ آرائی کے لیے تیار ہو گئے، چہار شنبہ و پنجشنبہ کی درمیانی شب دونوں نے فیصلہ کن جنگ کی تیاریوں میں بسر کی، جمعرات کے دن نماز فجر کے وقت بعد از نماز فجر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے پورے لشکر کو لے کر شامیوں پر حملہ کیا، اس حملہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ قلب لشکر میں تھے جہاں کوفہ و بصرہ کے شرفاء اور اہل مدینہ جن میں اکثر انصار اور کمتر بنو خزاعہ و بنو کنانہ شامل تھے، میمنہ کی سرداری سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن بدیل بن ورقاء خزاعی کو سپرد کی تھی اور میسرہ سیدنا عبداللہ کے سپرد کیا تھا، ہر ایک قبیلہ کے لیے جگہ اور مقام مقرر کر دیا گیا تھا، ہر ایک قبیلہ کا الگ الگ جھنڈا اور الگ الگ افسر تھا، سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو آج رجز خوانوں اور قاریوں کا انتظام سپرد تھا، قیس بن سعد رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن یزید بھی رجز خوانوں کی افسری پر مامور تھے۔

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خیمہ میں بیٹھ کر لوگوں سے موت پر بیعت لی تھی، ان کے لشکر میں حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ میسرہ کے اور عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ میمنہ کے افسر تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کا میمنہ اول آگے بڑھا اور عبداللہ بن بدیل خزاعی نے اپنی ماتحت فوج یعنی میمنہ کو لے کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے میسرہ یعنی حبیب بن مسلمہ پر حملہ کیا، یہ حملہ اگرچہ نہایت سخت اور نقصان رساں تھا، لیکن اس کا نتیجہ لشکر شام کے لیے اچھا نکلا، حبیب بن مسلمہ کی رکابی فوج کو عبداللہ بن بدیل دباتے اور پیچھے ہٹاتے ہوئے اس مقام تک لے گئے جہاں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر موت کے لیے بیعت کی گئی تھی، اپنے میمنہ کی اس نازک حالت کو دیکھ کر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو جو ان کے گرد تھے حملہ کا حکم دیا، ان لوگوں کا حملہ ایسا زبردست تھا کہ عبداللہ بن بدیل صرف ڈھائی سو آدمیوں کے ساتھ رہ گئے، باقی تمام عراقی پسپا اور فرار ہو کر اس مقام تک پہنچ گئے جہاں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کھڑے تھے، اپنے میمنہ کی ایسی ابتر حالت دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سہل بن حنیف کو اہل مدینہ کا افسر بنا کر عبداللہ بن بدیل کی حفاظت و اعانت کے لیے روانہ کیا، لیکن شامیوں نے سہیل بن حنیف کو عبداللہ بن بدیل تک نہ پہنچنے دیا اور تھوڑی دیر کے بعد عبداللہ بن بدیل شامی لشکر کے ہاتھ سے مع اپنے ہمرائیوں کے کام آئے۔

ادھر میمنہ کی یہ شکست سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنی طرف متوجہ کئے ہوتے تھے کہ ادھر ان کے میسرہ کو بھی شامیوں کے مقابلہ میں شکست ہوئی، میسرہ میں صرف ایک قبیلہ ربیعہ پامردی و استقلال کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم رہا، باقی دستے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے، اپنے میسرہ کو فرار ہوتے ہوئے دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے تینوں بیٹوں حسن رضی اللہ عنہ، حسین رضی اللہ عنہ، محمد رضی اللہ عنہ کو اس طرف روانہ کیا کہ قبیلہ ربیعہ کے بھی کہیں پاؤں نہ اکھڑ جائیں اور اشتر کو حکم دیا کہ میمنہ کے فراریوں سے جا کر یہ کہو کہ تم اس موت سے کہاں بھاگے جاتے ہو جس کو تم حیات کے ذریعہ مجبور نہ کر سکو گے، اشتر نے گھوڑا دوڑا کر میمنہ کے بھاگے ہوئے لوگوں کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ پیغام سنایا اور بلند آواز سے غیرت دلانے والے فقرے کہہ کر ان کو روکا اور اپنے ہمراہ لے کر لشکر شام کے مقابلہ پر مستعد کیا، ادھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ میسرہ کی حالت سنبھالنے کے لیے خود متوجہ ہوئے، قبیلہ ربیعہ نے جب دیکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ خود ہم میں شامل ہو کر تلوار چلا رہے ہیں تو ان کی ہمتوں میں اور بھی اضافہ ہوا۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بذات خود لڑتا ہوا دیکھ کر ابوسفیان کا غلام احمر ان کی طرف جھپٹا، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے غلام کیسان نامی نے آگے بڑھ کر اس کا مقابلہ کیا، دونوں میں تلوار چلنے لگی، بالآخر احمدان کے ہاتھ سے کیسان مقتول ہوا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے خادم کو مقتول دیکھ کر احمدان پر حملہ کیا اور جوش غضب میں اس کو اٹھا کر اس زور سے زمین پر دے مارا کہ اس کے دونوں ہاتھ بے کار ہو گئے، لشکر شام نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مصروف جنگ دیکھ کر ان پر حملہ کیا، مگر اہل ربیعہ نے ان کے حملے کو روک لیا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ تک انہیں نہ پہنچنے دیا۔

اشتر نے بھی ادھر میمنہ کی حالت کو سنبھال لیا اور لڑائی کا عنوان جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے بہت خطرناک ہو چکا تھا کسی قدر درست ہوا اور طرفین نے میدان میں جم کر تلواریں چلانی شروع کیں، عصر کے وقت تک برابر تلوار چلتی رہی، عصر کے قریب مالک اشتر نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے میسرہ کو دبا کر پیچھے ہٹایا، لیکن امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی رکابی فوج نے جو مرنے پر بیعت کر چکی تھی اپنے میسرہ کو سہارا دیا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے میمنہ کو دھکیل کر دور تک پیچھے ہٹا دیا۔

میمنہ، میسرہ اور مقدمۃ الجیش جنگی فوج کی اصطلاحات ہیں۔ فوج کے اگلے حصے کو مقدمۃ الجیش، دائیں حصے کو میمنہ اور بائیں حصے کو میسرہ کہتے ہیں۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے عبداللہ بن حصین جو عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے ہمراہیوں میں سے تھے رجز پڑھتے ہوئے آگے نکلے، مخالف سمت سے عقبہ بن حدیبہ نمیری نے بڑھ کر مقابلہ کیا، عقبہ کے مارے جانے پر شامیوں کی طرف سے سخت حملہ ہوا اور اہل عراق کو سخت نقصان برداشت کرنا پڑا، لیکن وہ اپنی جگہ پر قائم رہے۔

سیدنا علی کرم رضی اللہ عنہ میسرہ کی طرف سے میمنہ والوں کی ہمت بندھانے اور ان کو لڑائی کی ترغیب دینے کے لیے تشریف لائے، یہاں خوب جم کر نہایت زور و شور سے تلوار چل رہی تھی، ادھر ذوالکلاح حمیری اور عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے میسرہ پر اس شدت سے حملہ کیا کہ قبیلہ ربیعہ کا حکم بھی اپنی جگہ پر قائم نہ رہ سکا اور کشتوں کے پشتے لگ گئے، میسرہ کی اس تباہ حالت کو دیکھ کر عبدالقیس نے آگے بڑھ کر ربیعہ کو سنبھالا اور اہل شام کی پیش قدمی کو روکا، اس بروقت امداد سے میسرہ کی حالت پھر سنبھل گئی اور اتفاق کی بات کہ ذوالکلاح حمیری اور عبیداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ دونوں لڑائی میں کام آئے۔

غرض صبح سے شام تک میمنہ و میسرہ سے بڑے زور و شور سے تلوار چلتی رہی مگر دونوں فوجوں کے قلب ابھی تک ہنگامہ کار زار کے شور وغل سے خالی اور خاموش تھے، آخر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہو اور اس کو مال و اولاد کی طرف واپس جانے کی خواہش نہ ہو وہ میرے ساتھ آ جائے، وہ یہ کہتے ہوئے چلے اور ان کے ساتھ بہت سے لوگ مارنے اور مرنے پر مستعد ہو کر شامل ہو گئے، آخر وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے علمبردار بن عتبہ کے پاس پہنچے وہ بھی عَلم لیے ہوئے ان کے ساتھ ہو لیے، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اپنے فدائی گروہ کو لیے ہوئے لشکر شام کے قلب پر حملہ آور ہوئے، اب دن ختم ہو کر رات شروع ہو گئی تھی، عمار رضی اللہ عنہ بن یاسر رضی اللہ عنہ کا یہ حملہ نہایت سخت تھا جس کو عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے بڑی مشکل سے روکا، خوب تلوار چلی اور آخرکار سیدنا عمار رضی اللہ عنہ اسی لڑائی میں کام آئے۔

عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے مارے جانے کی خبر جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوئی تو سخت صدمہ ہوا اور اس کے بعد لشکر اہل شام کا بھی ہر حصہ مصروف جنگ ہو گیا، تلواروں کی خچاخچ اور نیزوں کی طعن و ضرب، نیز رجز خوانوں کی آوازوں اور لڑانے والوں کی تکبیروں سے تمام عرصہ شب معمور رہا، یہ رات جمعہ کی رات تھی لیلۃ الہریر کے نام سے مشہور ہے، اسی شب میں سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کبھی میمنہ میں ہوتے تھے، کبھی میسرہ میں نظر آتے اور کبھی لشکر میں شمشیر زنی کرتے ہوئے دیکھے جاتے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ میسرہ کو سنبھالے ہوئے تھے اور اشتر نے میمنہ کو سنبھال رکھا تھا، اسی طرح معاویہ رضی اللہ عنہ، عمروبن العاص رضی اللہ عنہ اور دوسرے سرداروں نے لشکر شام کو مصروف جنگ رکھا، ساری رات اسی جنگ و پیکار میں بسر ہو گئی دن کے بعد رات بھی ختم ہو گئی، مگر لڑائی کے ختم ہونے کی کوئی صورت ظاہر نہ ہوئی، جمعہ کا دن شروع ہوا اور آفتاب افق مشرق سے طلوع ہوا تو اس نے غروب ہوتے وقت دونوں لشکروں کو جس طرح مصروف قتال چھوڑا تھا اسی طرح مصروف قتال دیکھا۔

لیلۃ الہریر کی جنگ و پیکار میں ایک قابل تذکرہ واقعہ یہ بھی ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ بارہ ہزار سواروں کا زبردست دستہ لیے ہوئے اس سرعت و قوت سے حملہ آور ہوئے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خیمے تک پہنچے گئے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو آواز دے کر کہا کہ مسلمانوں کو قتل کرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، آؤ ہم دونوں میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں ہم میں جو کامیاب ہو وہی خلیفہ ہو جائے گا، اس آواز کو سن کر عمروبن العاص نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بات تو معقول ہے آپ کو مقابلے کے لیے نکلنا چاہیے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس فیصلے کو تم اپنے لیے کیوں پسند نہیں کرتے، کیا تم کو معلوم نہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ پر جو شخص میدان میں نکلتا ہے وہ جانبر نہیں ہوتا، پھر ہنس کر کہا کہ شاید تم مجھ کو اس لیے مقابلہ پر بھیجتے ہو کہ میں مارا جاؤں اور میرے بعد تم ملک شام کے مالک بن بیٹھو، غرض امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو کوئی جواب نہیں دیا گیا اور وہ اپنے لشکر کی طرف تشریف لے آئے۔

جمعہ کے دن بھی دوپہر تک بدستور لڑائی جاری رہی، اب تلوار چلتے ہوئے مسلسل تیس گھنٹے سے زیادہ مدت گزر چکی تھی، اس تیس گھنٹہ میں ستر ہزار کے قریب آدمی طرفین سے مارے جا چکے تھے، اسلام کی اتنی بڑی طاقت کا آپس میں لڑ کر ضائع ہونا سب سے بڑی مصیبت تھی جو اس تیس گھنٹہ کی منحوس مدت میں مسلمانوں پروارد ہوئی، ستر ہزار ایسے بے نظیر بہادروں کو قتل کرا کر تو مسلمان نہ صرف اس زمانہ کی ساری دنیا بلکہ ایسی ایسی کئی دنیاؤں کو فتح کر سکتے تھے

جب دوپہر ڈھل گئی تو مالک اشتر نے اپنے متعلقہ حصہ فوج کا چارج عیان بن ہوذہ کو سپرد کیا اور خود سواروں کی جمعیت کو ایک طرف لے جا کر اہل شام پر حملہ کرنے اور جان دینے کی ترغیب دی، سواروں نے اس بات کا اقرار کیا کہ ہم فتح حاصل کئے یا جان دئیے بغیر واپس نہ آئیں گے۔ سواروں کا ایک دستہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی رکاب میں رہا اور بڑے حصے کو اشتر نے لے کر ایک مناسب سمت سے شامی لشکر پر حملہ کیا، لڑائی کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ وقت بھی بہت ہی مناسب آ گیا تھا کیونکہ اب تک کی لڑائی میں اگرچہ پہلے دن یعنی جمعرات کے روز شامی لشکر چیرہ دست اور غالب نظر آتا تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی حالت جمعرات کے دن شام تک ایسی خطرناک تھی جس سے گمان ہو سکتا تھا کہ شکست ان ہی کے حصے میں آئے گی اور لشکر شام فتح مند ہو جائے گا، لیکن رات کے معرکہ میں شامیوں کے زیادہ آدمی مارے گئے اور اب جمعہ کے دن دوپہر ڈھلنے تک اگرچہ لڑائی کانٹے کا تول برابر تلی ہوئی نظر آتی تھی، مگر شامیوں کے نصف سے زیادہ آدمی مارے جا چکے تھے اور ان کی تعداد اب بجائے اسی ہزار کے صرف ۳۵ ہزار کے باقی رہ گئی تھی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں اب تک بیس پچیس ہزار آدمی مارے گئے تھے اور ان کی تعداد ساٹھ ہزار باقی تھی، یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی تعداد اب سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کی تعداد سے دگنی تھی۔ (یہ غیر معقول تجزیہ ہے، طبری کی روایت بتاتی ہے کہ لشکر علی کے مقتولین کی تعداد لشکر معاویہ کے مقتولین کی تعداد سے دگنا تھی، لشکر علی کے چالیس ہزار اور لشکر معاویہ کے بیس ہزار آدمی مارے گئے تھے۔)

ایسی حالت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے موقع تھا کہ وہ دشمن کو مصروف جنگ رکھتے ہوئے اپنی فوج کے ایک معقول حصے کو جدا کر کے مصروف و مشغول دشمن کے پہلو یا پشت پر ایک زبردست ضرب لگائیں کہ اس کا کام تمام ہو جائے اور لڑائی کا نتیجہ فتح کی شکل میں فوراً برآمد ہو جائے، چنانچہ مالک اشتر نے اپنے فدائی سواروں کے ساتھ ایک نہایت ہیبت ناک حملہ کیا، یہ حملہ سواروں ہی کے ذریعہ ہونا چاہیے تھا کیونکہ جو فوج تیس یا بتیس گھنٹہ سے برابر مصروف جنگ تھی، اس کے سپاہیوں میں جسمانی طاقت بہت کچھ ضعف وتکان کے سبب مغلوب ہو چکی ہو گی، ایسے سپاہیوں کے حملے میں مرعوب کُن شان کا پیدا کرنا آسان نہ تھا، لیکن گھوڑوں کو اب تک زیادہ کام نہ کرنا پڑا تھا اور وہ پیدل سپاہیوں کی نسبت یقینا تازہ دم تھے۔

اشتر نے برق و باد کی طرح حملہ کیا، صفوں کو ریلتا دھکیلتا اور روندتا ہوا شامیوں کے قلب لشکر تک پہنچ گیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب اشتر کو کامیاب حملہ کرتے اور اس کے عَلم کو دم بدم آگے بڑھتے ہوئے دیکھا تو ادھر سے اپنے رکابی سواروں کے کمکی دستے یکے بعد دیگرے پیہم بھیجنا شروع کئے تاکہ اس حملہ کی ترقی کسی جگہ رکنے نہ پائے اور اشتر دم بدم زیادہ طاقتور ہوتا جائے۔

اس تدبیر کا تیر ٹھیک نشانے پر بیٹھا، شامی فوج کا علمبردار بھی اشتر کے ہاتھ سے مارا گیا اور عمروبن العاص رضی اللہ عنہ اور سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی فرود گاہ کے سامنے کشت و خون ہونے لگا، اشتر کے حملہ آور ہونے کے وقت شدت جنگ کی وجہ سے دونوں فوجوں کا پھیلاؤ سمٹ چکا تھا، میمنہ اور میسرہ اپنے اپنے قلب کے ساتھ مل کر ایک ہو گئے تھے اور پوری تیزی سے ایک دوسرے کے قتل کرنے میں مصروف تھے، اگر میمنہ اور میسرہ پھیلے ہوئے ہوتے اور لڑائی کے مرکز ہوتے تو اشتر کا یہ حملہ کوئی قطعی فیصلہ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ فوج کے ایک حصے کا زور بآسانی دوسرے حصے کی جانب منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا اور سپہ سالار اعظم کوئی نہ کوئی تدبیر نکال سکتا تھا، لیکن یہ حملہ ایسے صحیح موقع اور مناسب وقت پر کیا گیا تھا کہ شامی لشکر کی شکست میں کوئی کسر باقی نہ تھی۔

لشکر شام کے سردار حریف کو اپنے قلب میں چیرہ دست اور اپنے علمبردار کو مقتول دیکھ کر حواس باختہ ہو چکے تھے، ساری کی ساری طاقت اپنے مدمقابل سے زور آزمائی میں مصروف تھی اور ان اچانک آ پڑنے والے حملہ آوروں کی مدافعت کے لیے کوئی محفوظ طاقت باقی نہ تھی، ابھی تک شامیوں نے میدان جنگ سے منہ نہیں موڑا تھا اور ابھی تک وہ کسی طرح شکست خوردہ نہیں کہے جا سکتے تھے، لیکن ان کے شکست پانے اور ہزیمت یافتہ ہونے میں اب گھٹنوں کی نہیں بلکہ منٹوں کی دیر تھی کہ سیدنا عمروابن العاص رضی اللہ عنہ کی انگشت تدبیر کے ایک اشارے نے نتیجہ جنگ کو ادھر سے ادھر پلٹ دیا۔ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا.

:جنگ صفین کا خاتمہ

*سیدنا علی رضی اللہ عنہ اشتر کے کامیاب حملہ کو دیکھ کر جس قدر مسرورو مطمئن تھے، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اسی قدر پریشان و حواس باختہ ہو رہے تھے، عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اب دیکھتے کیا ہو لوگوں کو حکم دو کہ وہ فوراً تیروں پر قرآن مجید کو بلند کریں اور بلند آواز سے کہیں” ہذا کتاب اللہ بیننا و بینکم” (ہمارے تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید موجود ہے) چنانچہ فوراً یہ حکم دیا گیا اور اہل شام نے نیزوں پر قرآن شریف کو بلند کر کے کہنا شروع کیا کہ ہم کو قرآن شریف کا فیصلہ منظور ہے، بعض حصوں سے آواز آتی تھی کہ مسلمانوں ہماری لڑائی دین کے لیے ہے، آؤ قرآن کریم کے فیصلے کو منظور کر لیں اور لڑائی کو ختم کر دیں۔ بعض سمتوں سے آواز آتی تھی کہ مسلمانوں قرآن شریف کو حَکم بنا لو، اگر لڑائی میں شامی لوگ تباہ ہو گئے تو رومیوں کے حملے کو کون روکے گا اور اہل عراق برباد ہو گئے تو مشرقی حملہ آوروں کا کون مقابلہ کرے گا۔؟

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر والوں نے جب قرآن مجید کو نیزوں پر بلند دیکھا تو لڑائی سے ہاتھ کھینچ لیا، سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے شامیوں کی یہ حرکت دیکھ کر کہا کہ اب تک تو لڑائی تھی لیکن اب فریب شروع ہو گیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سمجھایا کہ تم اس وقت کوتاہی نہ کرو بہت جلد تم کو کامیابی حاصل ہو جائے گی، لوگ مسلسل لڑتے لڑتے تھک گئے تھے اور اس لڑائی کو جو مسلمانوں کے درمیان ہو رہی تھی مضر اسلام بھی سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے لڑائی کے بند کرنے اور صلح پر رضا مند ہو جانے کی اس درخواست کو بہت ہی غنیمت سمجھا اور فوراً تلواریں میان میں رکھ لیں، اب تک دونوں لشکروں کی طاقت مقابلہ میں بالکل مساوی ثابت ہوتی رہی تھی اور فتح کا قریب ہونا جس طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور بعض تجربہ کار و باخبر سرداروں کو تو نظر آتا تھا، عام سپاہیوں اور لڑنے والوں کو اس کے سمجھنے کا موقع نہ ملا تھا، اس لیے بھی فوج کی غالب تعداد نے شامیوں کی اس خواہش کو بہت ہی غنیمت اور مناسب سمجھا، یہ رنگ دیکھ کر سبائی گروہ کے افراد کی بھی آنکھیں کھلیں وہ فوراً میدان عمل میں نکل آئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گرد جمع ہو کر ان کو مجبور کرنا شروع کیا کہ آپ اشتر کو واپس بلا لیں۔

اشتر اپنی کامیابی کو یقینی سمجھتا اور فتح و فیروزی کو پیش افتادہ دیکھتا تھا، اشتر کے واپس بلانے اور لڑائی بالکل بند کر دینے کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ عام لشکری آ کر شریک ہونے لگے، ادھر لوگوں نے لڑائی بند کر دی اور اشتر کے حملہ کو روکنے کے لیے شامی فوج فارغ ہو گئی، ادھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لوگوں نے چاروں طرف سے گھیر کر یہاں تک گستاخانہ کلام کیا کہ اگر آپ اشتر کو واپسی کا حکم نہ دیں گے تو ہم آپ کے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے جو ہم نے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا ہے، یہ خطرناک صورت دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اشتر کے پاس فوراً آدمی دوڑایا کہ یہاں فتنہ کا دروازہ کھل گیا ہے جس قدر جلد ممکن ہو اپنے آپ کو میرے پاس واپس پہنچاؤ، اشتر بادل ناخواستہ واپس آیا اور لڑائی کا ہنگامہ یک لخت بند ہو کر تمام میدان پرسکون و خاموشی طاری ہو گئی۔

اشتر کے واپس آنے پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے صورت واقع بیان کی، اشتر نے افسوس کیا اور کہا کہ اے اہل عراق! جس وقت تم اہل شام پر غالب ہونے والے تھے اسی وقت ان کے دام فریب میں مبتلا ہو گئے، لوگوں میں یہاں تک لڑائی کے خلاف جوش پیدا ہو چکا تھا کہ انہوں نے اشتر پر حملہ کرنا چاہا، مگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ڈانٹنے اور روکنے سے وہ رک گئے، اس کے بعد اشعث بن قیس نے آگے بڑھ کر عرض کیا کہ امیرالمومنین رضی اللہ عنہ! لوگوں نے قرآن کو حَکم تسلیم کر لیا اور لڑائی بند ہو گئی، اب اگر آپ اجازت دیں تو میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان کا منشائے دلی معلوم کروں؟
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو اجازت دی، وہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور دریافت کیا کہ تم نے قرآن شریف کو کس غرض سے نیزوں پر بلند کیا تھا؟
انہوں نے جواب دیا ہم اور تم دونوں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی طرف رجوع کریں، ایک شخص کو ہم اپنی طرف سے منتخب کریں اور ایک کو تم اپنی طرف سے مقرر کر دو، ان دونوں سے حلف لیا جائے کہ وہ قرآن مجید کے موافق فیصلہ کریں گے، اس کے بعد وہ جو فیصلہ کریں، اس پر ہم تم دونوں راضی ہو جائیں۔

اشعث بن قیس یہ سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں واپس آئے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جو کچھ سنا تھا وہ سب بیان کر دیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اردگرد جس قدر لوگ موجود تھے، یہ سن کر ان سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم اس بات پر راضی ہیں اور ایسے فیصلہ کو پسند کرتے ہیں۔

اس کے بعد سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام سے دریافت کیا گیا کہ تم اپنی طرف سے کس کو حکم منتخب کرتے ہو؟
انہوں نے کہا کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو، اب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مجلس میں یہ مسئلہ پیش ہوا کہ ہماری طرف سے کون حکم مقرر کر دیا جائے؟
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو پسند کرتا ہوں، ان کے اہل مجلس نے کہا کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ آپ کے رشتہ دار ہیں ہم ایسے شخص کو حکم مقرر کرنا چاہتے ہیں جس کا آپ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے یکساں تعلق ہو، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا تم بتاؤ کس کو پسند کرتے ہو؟
لوگوں نے کہا کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو بہت مناسب سمجھتے ہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو ثقہ نہیں سمجھتا، تم اگر ابن عباس رضی اللہ عنہ کو میرا رشتہ دار ہونے کی وجہ سے انتخاب نہیں کرتے ہو تو مالک اشتر کو مقرر کر دو وہ میرا رشتہ دار بھی نہیں ہے، لوگوں نے کہا کہ ابو موسی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت ملی ہے وہ صحابی ہیں اور مالک اشتر اس شرف سے محروم ہے، لہذا ہم اس کو ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ پر ہرگز ترجیح نہ دیں گے۔ آخر سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ حکم تجویز ہو گئے۔ ابھی یہ مجلس برپا ہی تھی کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ اقرار نامہ لکھنے کے لیے آ گئے۔*

:اقرار نامہ کی تحریر اور میدان جنگ سے واپسی

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اقرار نامہ تحریر کرنے کے لیے عرض کیا، چنانچہ اسی وقت مندرجہ ذیل اقرار نامہ لکھا گیا۔

یہ اقرار نامہ ہے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے درمیان۔

علی بن ابی طالب نے اہل کوفہ اور ان تمام لوگوں کی طرف سے جو ان کے ساتھ ہیں ایک منصف یا پنچ مقرر کیا ہے اور اسی طرح معاویہ ابن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے اہل شام اور ان تمام لوگوں کی طرف سے جو ان کے ساتھ ہیں ایک پنچ مقرر کر دیا ہے، ہم اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے حکم کو قاضی قرار دے کر اس بات کا اقرر کرتے ہیں کہ حکم اللہ تعالیٰ اور کتاب اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے کو دخل نہ دیں گے، ہم الحمد سے لے کر والناس تک تمام قرآن شریف کو مانتے اور وعدہ کرتے ہیں کہ قرآن شریف جن کاموں کے کرنے کا حکم دے گا اس کی تعمیل کریں گے اور جن سے منع کرے گا ان سے رک جائیں گے، دونوں پنچ جو مقرر ہوئے ہیں، ابو موسیٰ عبداللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ اور عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ ہیں، یہ دونوں جو کچھ کتاب اللہ میں پائیں گے اسی کے موافق فیصلہ کریں گے اور اگر کتاب اللہ میں نہ پائیں گے تو سنت عادلہ جامعہ غیر مختلف فیہا پر عمل کریں گے

اس کے بعد حَکمین یعنی ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے اقرار لیا گیا کہ ہم خدائے تعالیٰ کو حاضر و ناظر سمجھ کر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق صحیح فیصلہ کریں گے اور امت مرحومہ کو جنگ و فساد اور تفرقہ میں مبتلا نہ کریں گے، اس کے بعد رمضان تک یعنی چھ مہینے کی مہلت حکمین کو دی گئی کہ اس مدت کے اندر اندر ان کو اختیار ہے کہ جب چاہیں فریقین کو اطلاع دے کر مقام اذرح متصل دومۃ الجندل جو دمشق و کوفہ کے درمیان دونوں شہروں کے برابر فاصلہ پر ہے، آ کر اپنا فیصلہ سنا دیں اور اس عرصہ میں زیر بحث مسئلہ کے متعلق اپنی تحقیقات کو مکمل اور اپنے خیالات کو مجتمع کر لیں، یہ بھی تجویز ہوا کہ جب کوفہ سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور دمشق سے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ مقام اذرح کی طرف فیصلہ سنانے کے لیے روانہ ہوں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ہمراہ چار سو آدمی اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ عمروبن العاص کے ہمراہ چار سو آدمی روانہ کریں، یہ آٹھ سو آدمی تمام مسلمانوں کے قائم مقام سمجھے جائیں گے جن کو حکمین اپنا فیصلہ سنا دیں گے

ان مذکورہ باتوں کے طے ہو جانے کے بعد قرار داد کے موافق سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام لشکر سے اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام لشکر سے اس بات کا اقرار لیا کہ فیصلہ سنانے کے بعد حکمین کے جان و مال اور اہل و عیال سب محفوظ اور امن میں ہوں گے، دونوں لشکروں نے بخوشی اس کا اقرار کیا، اس کے بعد اقرار نامہ کی دو نقلیں تیار کی گئیں، ان پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اشعث بن قیس، سعد بن قیس ہمدانی، ورقاء بن سیمی، عبداللہ ابن فحل عجلی، حجر بن عدی کندی، عبداللہ بن الطفیل عامری، عقبہ بن زیاد حضرمی، یزید بن تجحفہ تمیمی اور مالک بن کعب ہمدانی نے بطور گواہ اور ضامن کے دستخط کئے۔

اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے ابوالاعور سلمی، حبیب بن مسلمہ، وائل ابن علقمہ عدوی، حمزہ بن مالک ہمدانی، عبدالرحمن بن خالد مخزومی، سبیع بن یزید انصاری، عتبہ بن ابوسفیان، یزید بن الحر عبسی کے دستخط ہوئے۔

جب دونوں نقلیں مکمل ہو گئیں تو ایک ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو دی گئی اور دوسری عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے سپرد کی گئی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے جن لوگوں نے بطور ضامن دستخط کئے ان میں سے مالک اشتر سے دستخط کے لیے کہا گیا، لیکن اس نے دستخط کرنے سے صاف انکار کیا، اشعث بن قیس نے اصرار کیا تو دونوں میں سخت کلامی تک نوبت پہنچی مگر کوئی فساد نہ ہونے پایا۔

اقرار نامہ کے مکمل اور دوسری متعلقہ باتوں کے طے ہونے میں چار دن صرف ہو گئے، ۱۳ ماہ صفر کو اقرار نامے حکمین کے سپرد کئے گئے اور دونوں لشکر میدان صفین سے سفر کی تیاری کر کے کوفہ اور دمشق کی جانب روانہ ہوئے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کوچ و مقام کرتے ہوئے بخیرت دمشق پہنچ گئے، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے اسی وقت سے ایک اور نئے فتنے کا دروازہ کھل گیا۔

:خوارج کا فتنہ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب ۱۳ ماہ صفر ۳۷ ھ کو میدان صفین سے کوفہ کی طرف واپسی کا قصد کیا تو کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ واپسی کا ارادہ فسخ کر دیں اور شامیوں پر حملہ آور ہوں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اقرار نامہ لکھنے کے بعد کیسے بد عہدی کر سکتا ہوں، اب ہم کو ماہ رمضان تک انتظار کرنا اور صلح کے بعد جنگ کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے، یہ سن کر وہ لوگ آپ کے پاس سے چلے گئے، لیکن الگ ہو کر اپنے ہم خیال لوگوں کو ترغیب دی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جدا ہو کر اپنی راہ الگ اختیار کرنی چاہیے، چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب لشکر کوفہ لے کر روانہ ہوئے تو راستہ بھر لشکر علی رضی اللہ عنہ میں ایک ہنگامہ اور تو تو میں برپا تھی، کوئی کہتا تھا کہ پنچایت کا مقرر کرنا اچھا ہوا، کوئی کہتا تھا برا ہوا، کوئی کہتا تھا اس معاملہ میں پنچایت کا مقرر ہونا شرعاً جائز ہے، کوئی کہتا جائز نہیں ہے، کوئی جواب دیتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے زوجین کے معاملہ میں حکمین کے تقرر کا حکم دیا ہے، کوئی کہتا تھا کہ اس معاملہ کو زوجین کے معاملہ سے تشبیہ دینا غلطی ہے، یہ معاملہ ہم کو خود اپنی قوت بازو سے طے کرنا چاہیے تھا۔

کبھی کوئی اعتراض کرتا تھا کہ حکمین کا عادل ہونا ضروری ہے اگر وہ عادل نہیں ہیں تو پھر ان کو حکم کیوں تسلیم کیا، پھر کوئی کہتا تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ ملتوی کرنے اور اشتر کے واپس بلانے کا جو حکم دیا وہ ناجائز تھا اس کو ہرگز نہیں ماننا چاہیے تھا، اس کے جواب میں دوسرا کہتا تھا کہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے، ان کا ہر ایک حکم ماننا ہمارا فرض ہے، یہ سن کر فوراً تیسرا بول اٹھتا تھا کہ ہم ہرگز کوئی ان کا نامناسب حکم نہ مانیں گے ہم مختار ہیں، عقل و فہم رکھتے ہیں، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہمارے لیے کافی ہے، اس کے سوا ہم اور کسی کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر نہیں رکھتے، یہ سن کر کچھ لوگ کہنے لگتے تھے کہ ہم ہر حالت میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہیں اور ان کی اطاعت کو فرض اور عین شریعت سمجھتے اور ان کی نافرمانی کو کفر جانتے ہیں، یہ باتیں بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچی کہ ہر منزل پر آپس میں گالی گلوج اور مار پیٹ تک نوبت پہنچ جاتی تھی۔

لشکر کی اس ابتر حالت کو اصلاح پر لانے اور لوگوں کو سمجھانے کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہر چند کوشش فرماتے تھے، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی کوششیں حسب منشاء نتائج پیدا نہ کر سکیں، وہ لشکر جو کوفہ سے صفین جاتے ہوئے بالکل متفق اور یک دل نظر آتا تھا اب صفین سے کوفہ کو واپس ہوتے ہوئے اس کی عجیب و غریب حالت تھی، تشتت و افتراق کا اس میں ایک طوفان موجزن تھا اور اختلاف آراء نے اختلاف و عداوت کی شکل اختیار کر کے فوج کے ضبط و نظام کو بالکل درہم برہم کر دیا تھا، بیسوں گروہ تھے جو بالکل الگ الگ خیالات و عقائد کا اظہار کر رہے تھے اور ایک دوسرے کو برا کہنے، طعن و تشنیع کرنے، چابک رسید کر دینے اور شمشیر و خنجر کی زبان سے جواب دینے میں بھی تامل نہ کرتے تھے۔

لیکن ان میں دو گروہ زیادہ اہمیت رکھتے اور اپنی تعداد اور جوش و خروش کے اعتبار سے خصوصی طور پر قابل توجہ تھے، ایک وہ جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ملزم ٹھہراتے اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کو مطلق ضروری نہیں سمجھتے تھے اور دوسرے وہ جو پہلے گروہ کی ضد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معصوم عن الخطاء کہتے اور ان کی اطاعت و فرماں برداری کو اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی فرماں برداری پر بھی ترجیح دینے کے لیے تیار تھے، پہلا گروہ خوارج اور دوسرا شیعان علی رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہوا، لطف کی بات یہ ہے کہ خوارج کے گروہ میں وہی لوگ امام اور لیڈر تھے جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مجبور کیا تھا اور کہا تھا کہ جلد اشتر کو واپس بلائیے اور لڑائی کو ختم کیجئے ورنہ ہم آپ کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں کو بار بار یاد دلاتے تھے کہ تم ہی لوگوں نے میرے منشاء کے خلاف لڑائی کو بند کرایا اور صلح کو پسند کیا، اب تم ہی صلح کو نا پسند کرتے اور مجھ کو ملزم ٹھہراتے ہو، مگر ان کی اس بات کو کوئی نہیں سنتا تھا، آخر نوبت بایں جا رسید کہ کوفہ کے قریب پہنچ کر بارہ ہزار آدمی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر سے جدا ہو کر مقام حروراء کی طرف چل دئیے

یہ خوراج کا گروہ تھا اس نے حروراء میں جا کر قیام کیا اور وہاں عبداللہ بن الکواء کو اپنی نمازوں کا امام، شبث بن ربعی کو سپہ سالار مقرر کیا، یہ وہی شبث بن ربعی ہیں جن کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے میدان صفین کے زمانہ قیام میں دو مرتبہ سفارتی وفد میں شامل کر کے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تھا اور دونوں مرتبہ ان ہی کی سخت کلامی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور دونوں سفارتیں صلح کی کوشش میں ناکام رہیں، اس گروہ نے حروراء میں اپنا نظام درست کر کے اعلان کر دیا کہ:

بیعت صرف اللہ تعالیٰ تعالی کی ہے، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے موافق نیک کاموں کے لیے حکم دینا، برے کاموں سے منع کرنا ہمارا فرض ہے، کوئی خلیفہ اور کوئی امیر نہیں ہے، فتح حاصل ہونے کے بعد سارے کام تمام مسلمانوں کے مشورے اور کثرت رائے سے انجام دئیے جایا کریں گے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ دونوں یکساں اور خطا کار ہیں۔

خوارج کی ان حرکات کا حال معلوم کر کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نہایت ضبط و تحمل اور درگزر سے کام لیا، کوفہ میں داخل ہو کر اول ان لوگوں کے اہل و عیال کو جو صفین میں مارے گئے تھے تسکین و تشفی دی اور کہا کہ جو لوگ میدان صفین میں مارے گئے ہیں وہ سب شہید ہوئے ہیں، پھر آپ نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو خوارج کے پاس بھیجا کہ ان کو سمجھائیں اور راہ راست پر لائیں، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کے لشکر گاہ میں پہنچ کر ان کو سمجھانا چاہا مگر وہ بحث و مباحثہ کے لیے بھی تیار تھے انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی باتوں کا رد کرنا شروع کیا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ان کا مباحثہ جاری تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی خود ان کے لشکر گاہ کی طرف تشریف لے گئے، اول آپ یزید بن قیس کے خیمے میں گئے کیونکہ یزید بن قیس کا اس گروہ پر زیادہ اثر تھا،* *سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یزید کے خیمے میں داخل ہو کر دو رکعت نماز پڑھی، پھر یزید بن قیس کو اصفہان ورے کا گورنر مقرر کیا، اس کے بعد اس جلسہ میں تشریف لائے جہاں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے خوارج کا مباحثہ ہو رہا تھا، آپ نے فرمایا: تم سب میں زیادہ سمجھدار اور پیشوا کون ہے؟ انہوں نے کہا عبداللہ بن الکواء، آپ نے عبداللہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم لوگوں نے میری بیعت کی تھی بیعت کرنے کے بعد پھر اس سے خارج ہونے اور خروج کرنے کا سبب کیا ہے؟
اس نے جواب دیا کہ آپ کے بے جا تحکم کی وجہ سے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری رائے لڑائی کے روکنے اور بند کرنے کی نہ تھی مگر تم نے لڑائی کا بند کرنا ضروری سمجھا اور مجھ کو مجبوراً پنچایت کے فیصلہ پر رضا مندی ظاہر کرنی پڑی، تاہم میں نے دونوں پنچوں سے عہد لے لیا ہے کہ قرآن مجید کے موافق فیصلہ کریں گے، اگر انہوں نے قرآن کے موافق فیصلہ کیا تو کوئی نقصان نہیں اور اگر قرآن کے خلاف فیصلہ کیا تو ہم اس کو ہرگز قبول نہ کریں گے،* *خوارج نے یہ سن کر کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کی خوں ریزی کا اقدام اور بغاوت کا ارتکاب کیا، اس میں حکم کا مقرر کرنا ہرگز عدل کی بات نہیں ہے، اس کے لیے قرآن میں صاف احکام موجود ہیں کہ وہ واجب القتل ہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے درحقیقت آدمیوں کو حکم نہیں بنایا، حکم تو قرآن مجید ہی ہے، آدمی قرآن کے فیصلے کو سنا دیں گے۔
پھر خوارج نے اعتراض کیا کہ بھلا چھ مہینے کی طویل مہلت دینے کی کیا ضرورت تھی؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس عرصہ میں ممکن ہے کہ مسلمانوں کا اختلاف خود بخود دور ہو جائے۔

غرض اسی قسم کی باتیں دیر تک رہیں، خوارج کے ایک سردار کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اصفہان اور رے کا حاکم مقرر فرما چکے تھے، ادھر عوام پر ان باتوں کا کچھ اثر ہوا، خوارج خاموش ہو گئے، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نرمی کے ساتھ ازراہ شفقت فرمایا کہ چلو شہر کوفہ کے اندر چل کر قیام کرو، اس چھ مہینے کے عرصہ میں تمہاری سواری اور باربرداری کے جانور بھی موٹے تازے ہو جائیں گے، پھر اس کے بعد دشمن کے مقابلہ کو نکلیں گے، یہ سن کر وہ رضا مند ہو گئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ روانہ ہو کر کوفہ میں داخل ہوئے اور پنچوں کے فیصلے کا انتظار کرنے لگے۔

سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ کی طرف رخصت کر دیا، کیونکہ وہ بصرہ کے گورنر تھے اور ان کو اب بصرہ میں پہنچ کر وہاں ۔کے انتظامات کو درست کرنا تھا۔

مقام اذرح میں حکمین کے فیصلے کا اعلان

جب چھ مہینے کی مہلت ختم ہونے کو آئی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بلایا اور شریح بن ہانی الحارثی کو چار سو آدمیوں کی سرداری پر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو نمازوں کی امامت پر مقرر فرما کر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مقام اذرح کی طرف روانہ کیا اور شریح بن ہانی کو سمجھا دیا کہ جب اذرح میں عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو تو کہہ دینا کہ راستی اور صداقت کو ترک نہ کیجئے اور قیامت کے دن کو یاد رکھئے

اسی طرح سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو چار سو آدمیوں کے ساتھ روانہ کیا۔ اس فیصلے کے سننے اور مقام اذرح کی مجلس میں شریک ہونے کے لیے مکہ اور مدینہ سے بھی بعض با اثر بزرگوں کو تکلیف دی گئی اور انہوں نے مسلمانوں کا اختلافِ باہمی رفع کرنے کی کوشش میں شریک ہونے سے انکار نہ کیا، چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ وغیرہ کئی حضرات تشریف لے آئے، اذرح میں جمع ہونے کے بعد لوگوں کو سخت انتظار تھا کہ کیا فیصلہ سنایا جاتا ہے، لیکن مقام اذرح میں حکمین نے جاتے ہی فیصلہ نہیں سنایا، بلکہ وہاں آپس میں حکمین کو خود بھی ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات کرنا تھا اور مکہ اور مدینہ کے بزرگوں کا انتظار بھی ضروری تھا۔

جس وقت سیدنا علی، ابو موسیٰ اشعری کو کوفہ سے اذرح کی طرف روانہ کرنے لگے تھے تو خوارج کی طرف سے حرقوص بن زہیر نے آکر سیدنا علی کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ نے ثالثی فیصلے کو تسلیم کرنے میں بڑی غلطی کی ہے۔ اب بھی آپ باز آ جائیں اور دشمنوں کی طرف لڑائی کے ارادہ سے کوچ کریں، ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں اقرار نامہ کے خلاف بدعہدی پر آمادہ نہیں ہو سکتا، یہ وہی حرقوس بن زہیر ہے جو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے واقعہ قتل کے ہنگامہ میں بلوائیوں کا خاص الخاص سردار تھا اور اب خارجیوں کے گروہ میں بھی سرداری کا مرتبہ رکھتا تھا، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روانگی کے بعد سیدنا علی جلد ازجلد اور روزانہ خطوط روانہ کرتے رہتے تھے، اسی طرح سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی عمروبن العاص کے پاس روانہ بذریعہ قاصد اور خطوط پیغامات بھیجتے رہتے تھے۔

یہ معاملہ ہی ایسا تھا کہ دونوں صاحبوں کو اس کا خاص خیال ہونا چاہیے تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خطوط عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے نام آتے تھے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خطوط عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے نام۔ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے ہمرائیوں میں ضبط و نظام اعلیٰ درجہ کا تھا، وہ سب کے سب عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے فرماں بردار تھے اور ان میں سے کسی کو بھی اس کا خیال تک نہ آتا تھا کہ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے یہ دریافت کریں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو کیا لکھا ہے؟

لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بھیجے ہوئے چار سو آدمیوں کی حالت اس کے بالکل خلاف تھی، وہ روزانہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا خط آنے پر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے گرد جمع ہو جاتے تھے، ہر شخص پوچھتا تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کیا لکھا ہے؟

اس طرح کوئی بھی بات صیغہ راز میں نہیں رہ سکتی تھی اور فوراً اس کی شہرت ہو جاتی تھی، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سخت مصیبت میں گرفتار تھے، بعض باتوں کو وہ پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے اور بیان کرنے میں تامل کرتے تھے تو لوگ ان سے ناراض ہوتے تھے، چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ان کے تمام ہمراہی ناخوش ہو گئے اور علانیہ ان کی شکایتیں کرنے لگے کہ یہ علی رضی اللہ عنہ کے خطوط کو چھپاتے ہیں اور باتیں ہم کو نہیں سناتے۔

الغرض عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، عبدالرحمن بن الحرث، عبدالرحمن بن عبد یغوث زہری رضی اللہ عنہ، ابوجہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ وغیرہم حضرات جب سب اذرح میں پہنچ گئے تو ان خاص الخاص اور نامور حضرات کی ایک محدود مجلس منعقد ہوئی اور اس میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بھی تشریف لائے، اس صحبت خاص میں عمروبن العاص رضی اللہ عنہ اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی گفتگو شروع ہوئی

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے اول اس بات کا اقرار کرایا کہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ مظلوم قتل کئے گئے، پھر اس بات کا بھی اقرار کرایا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ عم جد ہونے کی حیثیت سے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خون کا دعویٰ کرنے میں حق پر ہیں

یہ دونوں باتیں ایسی تھیں کہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کبھی ان کے خلاف اپنی رائے ظاہر نہیں کی تھی اور ان کے تسلیم کرنے میں ان کو کوئی تامل نہ ہوا۔ پھر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے مسئلہ خلافت کو چھیڑا اور کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قریش کے ایک شریف اور نامور خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں، صحابی بھی ہیں اور کاتب وحی بھی۔

ان باتوں کو سن کر ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے مخالفت کی اور کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ان خصوصیات سے مجھ کو انکار نہیں، لیکن امت مرحوم کی امارت ان کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ یا دوسرے محترم حضرات کی موجودگی میں کیسے سپرد کی جا سکتی ہے؟

یہ باتیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ میں فائق تر موجود ہیں، یعنی وہ رشتہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت ہی قریب ہیں، شریف خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور سرداران قریش میں شمار ہوتے ہیں، علم، شجاعت، تقویٰ وغیرہ صفات میں بھی وہ خاص طور پر ممتاز ہیں۔

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ میں انتظامی قابلیت اور سیاستدانی زیادہ ہے۔ ابو موسی نے کہا تقویٰ اور ایمانداری کے مقابلہ میں یہ چیز قابل لحاظ نہیں،  غرض اسی قسم کی باتیں ہوتی رہیں، آخر ابو موسیٰ اشعری نے کہا کہ میری تو رائے یہ ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ دونوں کو معزول کر کے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دیا جائے

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس وقت آنکھیں بند کئے ہوئے اپنے کسی خیال میں محو بیٹھے تھے، انہوں نے اپنا نام سن کر اور آنکھیں کھول کر بلند آواز سے کہا کہ۔۔۔ مجھ کو منظور نہیں ہے۔

عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم میرے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو کیوں منتخب نہیں فرماتے۔؟

ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں تیرا بیٹا عبداللہ بھی بہت نیک ہے، لیکن تو نے اس کو اس لڑائی میں شریک کر کے فتنہ میں ڈال دیا ہے۔ جب دیر تک گفتگو کا سلسلہ جاری رہا اور کوئی ایسی بات طے نہ ہوئی جس پر دونوں متفق ہو جاتے تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنی یہ رائے پیش کی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ دونوں کی مخالفت اور جنگ سے تمام مسلمان مصیبت اور فتنہ میں مبتلا ہو رہے ہیں، بہتر یہ ہے کہ ان دونوں کو ہم معزول کر دیں اور مسلمانوں کو اختیار دیں کہ وہ کثرت رائے یا اتفاق رائے سے کسی کو اپنا خلیفہ منتخب کر لیں

سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اس رائے کو پسند کیا اور تجویز ہوا کہ ابھی باہر چل کر جلسہ عام میں اس کا اعلان کر دیں، اگرچہ دونوں صاحب اس رائے پر متفق ہو گئے لیکن یہ رائے بھی خطرے اور اندیشے سے خالی نہ تھی کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی معزولی کو ہرگز تسلیم نہیں فرما سکتے تھے، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ملک شام کی پوری حمایت اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اپنا معاون رکھتے ہوئے اس فیصلے کو رضا مندی اور خوشی کے ساتھ نہیں سن سکتے تھے

بہرحال باقاعدہ طور پر مجمع عام کا اعلان ہوا تمام آدمی جو فیصلے کے لیے گوش برآواز و چشم برراہ تھے فوراً جمع ہو گئے، منبر لا کر رکھا گیا اور دونوں پنچ مع دیگر با اثر حضرات کے وہاں آئے۔

فیصلہ

حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ اعلان کر دیجئے اور فیصلہ جو ہو چکا ہے لوگوں کو سنا دیجئے، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے منبر پر چڑھ کر فرما دیا کہ

لوگو! ہم دونوں نے بہت غور کیا، لیکن سوائے ایک بات کے ہم اور کسی تجویز پر متفق نہ ہو سکے، اب میں تم کو اپنا وہی متفقہ فیصلہ سناتا ہوں اور امید ہے کہ اسی تجویز پر عمل کرنے سے مسلمانوں کی نا اتفاقی دور ہو کر ان میں صلح قائم ہو جائے گی، وہ فیصلہ جس پر میں اور عمروبن العاص رضی اللہ عنہ دونوں متفق ہیں یہ ہے کہ اس وقت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ دونوں کو معزول کرتے ہیں اور تم لوگوں کو اختیار دیتے ہیں کہ تم اپنے اتفاق رائے سے جس کو چاہو خلیفہ منتخب کر لو

مجمع نے اس تقریر کو سنا اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ منبر سے اتر آئے، اس کے بعد عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ منبر پر چڑھے اور انہوں نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ

آپ حضرات گواہ رہیں کہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے دوست سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا، میں بھی ان کی اس بات سے متفق ہوں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معزول کرتا ہوں لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ کو میں معزول نہیں کرتا بلکہ بحال رکھتا ہوں، کیوں کہ وہ مظلوم شہید ہونے والے خلیفہ کے ولی اور ان کی قائم مقامی کے مستحق ہیں۔

اگر سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی رائے کی تمام و کمال تائید کرتے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں کچھ نہ فرماتے تو حکمین کے فیصلے کی وہ بے حرمتی جو بعد میں ہوئی ہرگز نہ ہوتی، سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ فرمایا اس میں بھی گو کمزوری اور غلطی موجود ہو گی، لیکن کم از کم بد دیانتی اور خیانت کا شائبہ اس میں نہ تھا، اس سے آٹھ سو مسلمانوں کے مجمع کو بھی غالباً کوئی اختلاف نہ ہوتا، کیونکہ کسی ایک خلیفہ کے انتخاب کا اختیار حکمین کی طرف سے ان ہی آٹھ سو آدمیوں کو دیا گیا تھا۔ مگر جو کچھ بعد میں ہوا یہ سب کچھ پھر بھی ہونے والا تھا اور ممکن تھا کہ اس فیصلے سے اس سے بھی زیادہ خرابیاں مسلمانوں کے لیے پیدا ہوتیں، کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی معزولی کو تسلیم کرنے سے یقینا انکار فرماتے، اسی طرح سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ملک شام کی حکومت اور اپنے مطالبات سے دست بردار نہ ہوتے اور ایک تیسرا خلیفہ یا امیر جس کو یہ مجمع منتخب کرتا سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو سکتا تھا، اس طرح بجائے دو رقیبوں کے تین شخص پیدا ہو جاتے اور مسلمانوں کی تباہی و ہواخیزی اور بھی ترقی کر جاتی۔

بات دراصل یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مصالحت پر آمادہ نہ تھے، اگر وہ مصالحت کے خواہاں ہوتے تو جنگ صفین میں بڑی لڑائی شروع ہونے سے پیشتر جب کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے مصالحت کی کوشش کی گئی تھی، وہ صلح کی یہی صورت یعنی طرفین سے ایک ایک حکم مقرر کرنے کی درخواست پیش کر سکتے تھے

لیکن انہوں نے یہ خواہش اس وقت پیش کی جب کہ ان کو اپنی شکست کا یقین ہونے لگا تھا، لہذا ان کی طرف سے پنچوں کے تقرر کی خواہش کا پیش ہونا اور ہذا کتاب اللہ بیننا و بینکم کا اعلان کرنا مصیبت کو دور کرنے اور شکست سے بچنے کے لیے ایک جنگی تدبیر اور خدعہ حرب کے سوا اور کچھ نہ تھا۔

اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس پنچایت کی تجویز کو بطیب خاطر نہیں مانا تھا، وہ تو اس کے خلاف تھے، مگر لوگوں نے ان کو مجبور کرکے اور دھمکیاں دے کر اشتر کو واپس بلوایا اور لڑائی کو ختم کرایا تھا، لہذا یہ یقین کر لینا کہ اگر عمروبن العاص رضی اللہ عنہ مجمع عام میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے بیان کی حرف بحرف تائید کرتے اور دونوں حضرات کو معزول کر دیتے تو دونوں اس فیصلے کو تسلیم کرتے یا نہ کرتے، آسان نہیں ہے۔

بہرحال دونوں صاحبوں نے مجمع کے سامنے وہ تقریریں جو اوپر ہو چکی ہیں کیں، عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور دوسرے حضرات نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو ملامت کرنا شروع کی کہ تم فریب کھا گئے اور ابوموسیٰ نے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو سخت سست کہا کہ تم نے قرار داد باہمی کے خلاف اظہار رائے کیا اور مجھ کو دھوکہ دیا، غرض فوراً مجلس کا سکون درہم برہم ہو کر بدنظمی کی کیفیت پیدا ہو گئی، شریح بن ہانی نے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ پر تلوار کا وار کیا، عمرو بن العاص نے بھی اپنے آپ کو بچا کر شریح پر جوابی وار کیا، لوگ درمیان میں آ گئے اور لڑائی کو بڑھنے نہ دیا۔*

اس مجلس میں بدنظمی اور افراتفری پیدا ہو جانے کا نتیجہ بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے بہتر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے مضر ثابت ہوا، کیونکہ اب شامی و عراقی دونوں گروہوں کا ایک جگہ رہنا دونوں طرف کے سرداروں کی نگاہ میں مضر تھا، لہذا نہ ان آٹھ سو مسلمانوں کی جمعیت اب کوئی تجویز اتفاق رائے سے پاس کر سکتی تھی نہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنھم۔

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ دل برداشتہ ہو کر اذرح سے مکہ کی طرف روانہ ہو گئے اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بھی وہاں سے اپنی جمعیت کو ہمراہ لے کر فوراً دمشق کی جانب روانہ ہو گئے،  شریح اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے ہمرائیوں کے ساتھ کوفہ کی جانب کوچ کیا، مکہ اور مدینہ سے جو چند حضرات یہاں آئے تھے وہ بھی متأسف حالت میں اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے،  غرض تھوڑی ہی دیر میں اذرح کی انجمن درہم برہم ہو کر چڑیاں سی اڑ گئیں۔

شامی لوگ عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے ہمراہ خوشی خوشی دمشق کو جا رہے تھے اور انہوں نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو امیر المومنین اور خلیفۃ المسلمین کہنا شروع کر دیا تھا، دمشق میں پہنچ کر شامیوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو کامیابی کی خوش خبری سنائی اور ان کے ہاتھ پر سب نے بیعت کی۔

عراقی جمعیت جو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور شریح بن ہانی کے ہمراہ کوفہ کو جا رہی تھی اس کی حالت شامیوں کے خلاف تھی، یہ آپس میں ایک دوسرے کو برا کہتے اور جھگڑتے تھے، کوئی ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو ملزم ٹھہراتا اور برا کہتا، کوئی ابو موسیٰ کی تائید کرتا اور بے خطا ثابت کرنے کی کوشش کرتا تھا، کوئی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا کہتا اور حکمین کے تقرر پر رضا مندی ظاہر کرنے کے فعل کو غلطی بتاتا اور کوئی اس رائے کی مخالفت کر کے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتا۔

غرض ان چار سو آدمیوں کی حالت بالکل وہی تھی جو صفین سے کوفہ کی طرف جاتے ہوئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی تھی، کوفہ میں پہنچ کر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے تمام روداد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سنائی اور انہوں نے ابوموسیٰ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ دونوں کے فیصلے کو قرآن مجید کے خلاف بتا کر اس کے ماننے سے قطعاً انکار کیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ،  عمروبن العاص رضی اللہ عنہ، حبیب بن مسلمہ عبدالرحمن بن مخلد، ضحابک بن قیس، ولید اور ابو الاعور کے لیے بد دعا کی اور ان پر لعنت بھیجی اور اسی وقت سے ایک دوسرے پر لعنت کرنے کا سلسلہ جاری ہوا ۔۔۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

مقام اذرح کی کارروائی سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو صرف اس قدر فائدہ پہنچا کہ جو لوگ ان کے ساتھ شامل تھے پہلے وہ ان کو امیر المومنین اور مسلمانوں کا خلیفہ نہیں کہتے تھے اور اب وہ اعلانیہ ان کو امیر المومنین رضی اللہ عنہ کہنے لگے، مگر کوئی نئی جماعت محض اذرح کی کارروائی کی بنا پر ان کے ہاتھ پر بیعت نہیں ہوئی۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے پہلے ہی سے دوگونہ مشکل تھی، اب وہ سہ گونہ ہو گئی، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور شامیوں کو زیر کرنا اور خارجیوں کو قابو میں رکھنا یہ کام تو پہلے ہی سے درپیش تھے، اب تیسری مصیبت یہ پیش آئی کہ خود اپنے دوستوں اور معتقدوں کو یہ سمجھانا پڑتا تھا کہ حکمین نے چونکہ آپس میں بھی اختلاف کیا ہے، لہذا ان کا کوئی فیصلہ نہیں مانا جا سکتا، دوسرے حکمین کو قرآن مجید نے یہ اختیار نہیں دیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو چھوڑ کر اپنی اپنی خواہشات کی تائید کریں اور حق و راستی سے جدا ہو جائیں، چند روز تک سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کو یہی بات سمجھائی کہ حکمین کا فیصلہ ہرگز قابل تسلیم نہیں ہے اور ہم کو اہل شام پر چڑھائی کرنی چاہیے، جب یہ حقیقت لوگوں کی سمجھ میں آگئی اور وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شام پر چڑھائی کرنے پر آمادہ ہونے لگے تو گروہ خوارج نے بھی جو کوفہ میں کافی تعداد کے ساتھ موجود تھا کروٹ لی۔

خوارج کی شورش

اوپر بیان ہو چکا ہے کہ جس وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ حکمین کا فیصلہ سننے کے لیے چار سو آدمی مقام اذرح کی طرف بھیجنے لگے تھے توحرقوص بن زہیر نے کہا تھا کہ آپ اب بھی اپنی پنچایت کی کارروائی میں حصہ نہ لیں اور ملک شام پر چڑھائی کریں، لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس بات کے ماننے سے صاف انکار فرما دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم بدعہدی نہیں کر سکتے اور اپنے تحریری اقرار نامہ سے نہیں پھر سکتے۔ اب حرقوص اور تمام خوارج نے جب دیکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ پنچایت اور پنچوں کے فیصلے کو بے حقیقت اور ناقابل التفات ثابت کر کے لوگوں کو ملک شام پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دے رہے ہیں تو زرعہ بن البرج اور حرقوص بن زہیر دونوں خارجی سردار سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ نے ہمارے صحیح مشورے کو پہلے حقارت سے رد کر دیا اور اب آپ کو وہی کام کرنا پڑا جس کے لیے ہم کہتے تھے۔

پنچایت کے تسلیم کرنے میں آپ نے غلطی کی تھی لیکن آپ نے اس غلطی کو تسلیم نہیں کیا اور اب آپ پنچایت کو بے حقیقت بتانے اور ملک شام پر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں، پس ہم اب آپ کا ساتھ اس وقت دیں گے جب آپ اپنی غلطی اور گناہ کا اقرار کر کے اس سے توبہ کریں گے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پنچایت کے تسلیم کرنے اور حکم مقرر کرنے میں تم ہی لوگوں نے مجھ کو مجبور کیا تھا، ورنہ لڑائی کے ذریعہ اسی وقت فیصلہ ہو چکا ہوتا، یہ کیسی الٹی بات ہے کہ اب مجھ کو خطا کار ٹھہراتے اور مجھ سے توبہ کراتے ہو، انہوں نے کہا کہ اچھا ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہم نے بھی گناہ کیا، لہذا ہم بھی توبہ کرتے ہیں آپ بھی اپنے گناہ کا اقرار کر کے توبہ کریں پھر شامیوں سے لڑنے چلیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب میں گناہ ہی تسلیم نہیں کرتا تو توبہ کیسے کروں؟

یہ سن کر وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے اور ”لاحکم الا للہ، لا حکم الا للہ” کہتے ہوئے اپنی قیام گاہوں کی طرف چلے گئے۔

اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسجد کوفہ میں خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو مسجد کے ایک گوشہ سے ایک خارجی نے بلند آواز سے کہا کہ ”لاحکم الا للہ” سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ دیکھو لوگ کلمہ حق سے باطل کا اظہار کرتے ہیں۔ (کَلِمَۃُ حَقٌّ اُرِیْدُ بِھَا الْبَاطِلْ) اس کے بعد آپ نے پھر خطبہ شروع کیا تو یہی آواز آئی ” لا حکم الا للہ” سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگ ہمارے ساتھ بہت ہی نا مناسب برتاؤ کر رہے ہو، ہم تم کو مسجدوں میں آنے سے منع نہیں کرتے جب تک تم ہمارے ساتھ رہے ہم نے مال غنیمت میں بھی تم کو برابر حصہ دیا اور ہم تمہارے ساتھ اس وقت تک نہ لڑیں گے، جب تک کہ تم ہم سے نہ لڑو اور اب ہم تمہاری بابت اللہ کے حکم کو دیکھیں گے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے، یہ فرما کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسجد سے نکل کر مکان کی طرف تشریف لے گئے۔

اس کے بعد خارجی لوگ بھی عبداللہ بن وہب کے مکان پر بغرض مشاورت جمع ہوئے، عبداللہ بن وہب حرقوص بن زہیر، حمزہ بن سنان زید الطائی، شریح بن ابی اوفی عنبسی وغیرہ کی یہی رائے قرار پائی کہ کوفہ سے نکل کر پہاڑی مقامات کو قرار گاہ بنانا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حکومت سے آزاد ہو کر اپنی الگ حکومت قائم کرنا چاہیے، ہمزہ بن سنان اسدی نے کہا کہ روانگی سے پہلے ہم کو چاہیے کہ کسی ایک شخص کو امیر بنا لیں اور اس کے ہاتھ میں اپنا جھنڈا دیں۔

اس کام کے لیے اگلے دن شریح کے مکان پر پھر مجلس منعقد ہوئی، اس مجلس میں عبداللہ بن وہب کو خوارج نے اپنا امیر بنایا اور اس کے ہاتھ پر بیعت کی، عبداللہ بن وہب نے کہا کہ ہم کو یہاں سے اب کسی ایسے شہر کی جانب چلنا چاہیے جہاں ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کو جاری کر سکیں کیونکہ ہم اہل حق ہیں، شریح نے کہا کہ ہم کو مدائن کی طرف جانا چاہیے، کیونکہ اس پر ہمارا قبضہ بڑی آسانی سے ہو جائے گا اور وہاں کی تھوڑی سی فوج کو ہم بآسانی مغلوب کر سکیں گے، وہیں ہم اپنے ان بھائیوں کو بلوا لیں گے جو بصرہ میں موجود ہیں، زید بن حصین نے کہا کہ اگر ہم سب کے سب مجتمع ہو کر نکلے تو عجب نہیں ہمارا تعاقب کیا جائے، لہذا مناسب یہ ہے کہ دو دو، چار چار، دس دس کی ٹولیوں میں یہاں سے نکلیں اور اول مدائن نہیں بلکہ نہروان کی جانب چلیں اور وہیں اپنے بھائیوں کو خط بھیج کر بصرہ سے بلوا لیں، اس آخری رائے کو سب نے پسند کیا۔

قرار داد کے موافق یہ لوگ متفقہ طور پر چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں کوفہ سے نکلے، کوفہ سے نکل کر انہوں نے خوارج بصرہ کو لکھا کہ تم بھی بصرہ سے نکلو اور ہم سے نہروان میں آملو، بصرہ سے مشعر بن فدکی تیمی پانچ سو خوارج کی جمعیت لے کر نکلا۔

جب کوفہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ خوارج کی جمعیت کثیر کوفہ سے نکل کر مدائن کی طرف روانہ ہوئی ہے تو انہوں مدائن کے عامل سعد بن مسعود کے پاس تیز رو ایلچی بھیجا کہ خوارج کی روک تھام کریں اور ان سے غافل نہ رہیں، سعد بن مسعود نے اپنے بھتیجے کو اپنا قائم مقام بنا کر مدائن میں چھوڑا اور خود فوج لے کر خوارج کے روکنے کو روانہ ہوئے، راستے میں خوارج کی ایک جمعیت سے مقام کرج میں مقابلہ ہوا شام تک لڑائی ہوتی رہی، رات کی تاریکی میں خوارج دجلہ کو عبور کر گئے۔

اس کے بعد بصرہ کے خوارج پہنچ گئے، ان سے بھی مقابلہ و مقاتلہ ہوا وہ بھی دجلہ کو عبور کرنے اور مقام نہروان میں اپنے بھائیوں سے جا ملنے میں کامیاب ہو گئے، نہروان میں خوارج نے اپنی جمعیت کو خوب مضبوط اور منظم کر لیا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے تابعین پر کفر کا فتویٰ لگا کر ان لوگوں کو جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حق پر تسلیم کرتے تھے قتل کرنا شروع کیا، ان کی جمعیت روز بروز ترقی کرتی گئی، یہاں تک کہ ان کی تعداد ۲۵ ہزار تک پہنچ گئی۔

جنگ نہروان

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے کوفہ سے خارج ہونے کے بعد اہل کوفہ کو جنگ شام کے لیے ترغیب دی، انہوں نے یہی مقدم سمجھا تھا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ملک شام سے بے دخل کیا جائے، خوارج کے فتنہ کو وہ زیادہ اہم اور شام کی مہم پر مقدم نہیں کرنا چاہتے تھے، چنانچہ انہوں نے بصرہ کی جانب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس خط بھیجا کہ جنگ شام کے لیے جس قدر فوج ممکن ہو روانہ کر دو، بصرہ سے بھی خوارج چونکہ خارج ہو چکے تھے، لہذا ان کے اس اخراج کو غنیمت سمجھا گیا کہ نہ یہ لوگ شہر میں ہوں گے نہ فساد برپا کریں گے، بصرہ میں اس وقت ساٹھ ہزار جنگجو موجود تھے، لیکن جب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا خط لوگوں کو سنایا اور شام پر حملہ آور ہونے کے لیے ترغیب دی تو بڑی مشکل سے صرف تین ہزار ایک سو آدمی جانے کے لیے تیار ہوئے، باقی سب نے اس کان سنا اور اس کان اڑا دیا۔

کوفہ میں بھی لوگوں پر سرد مہری چھائی ہوئی تھی، جب بصرہ کی یہ تین ہزار فوج حارثہ بن قدامہ کی سرداری میں کوفہ پہنچی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کو جمع کر کے خطبہ دیا اور لوگوں کو لڑائی کے لیے آمادہ کیا، آخر کوفہ والے آمادہ ہو گئے، چالیس ہزار سے زیادہ لشکر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے جھنڈے تلے جمع ہو گیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مناسب سمجھا کہ خوارج کو بھی ایک مرتبہ پھر اپنے ساتھ شامل ہونے کی ترغیب دی جائے، چنانچہ انہوں نے نہروان میں عبداللہ بن وہب کے پاس خط بھیجا اور لکھا کہ تم شامیوں سے جنگ کرنے کے لیے ہمارے پاس چلے آؤ، ہم اسی پہلی رائے پر اور اہل شام سے جنگ کرنے پر آمادہ ہیں، عبداللہ بن وہب نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ خط اپنے ساتھیوں کو سنایا اور سب کے مشورے سے یہ جواب لکھا۔

تم نے حکمین کا تقرر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کے خلاف کیا تھا اور اب جو اہل شام سے لڑائی کا ارادہ کر رہے ہو، یہ بھی اپنے نفس کی خواہش سے کر رہے ہو اگر تم اپنے کافر ہونے کا اقرار کرنے کے بعد توبہ کرو تو ہم تمہاری مدد کرنے کو تیار ہیں، نہیں تو ہم تم سے لڑنے کو آمادہ ہیں۔

اس خط کے آنے سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خوارج کی طرف سے مایوسی ہو گئی، مگر انہوں نے ملک شام پر چڑھائی کرنے کے ارادے کو فسخ نہیں کیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تمام تر کوشش خوارج کو راہ راست پر لانے میں صرف ہوئی، لیکن وہ کسی طرح مصالحت کی جانب نہ آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب ان سے یہ کہتے تھے کہ تم ہی لوگوں نے تو مجھ کو لڑائی بند کرنے کے لیے مجبور کیا تھا اب تم کس منہ سے مجھ کو ملزم قرار دیتے ہو؟

تو وہ کہتے تھے کہ ہم اپنی خطا اور غلطی کو تسلیم کرتے ہیں، تم بھی اپنی خطاؤں کو تسلیم کرو، ہم مانتے ہیں کہ ہم غلطی کر کے کافر ہو گئے تھے، لیکن توبہ کر کے مسلمان ہو گئے، اسی طرح تم بھی توبہ کر کے مسلمان ہو جاؤ، تاکہ ہم اپنا فتویٰ جو تمہارے کفر کی نسبت صادر کر چکے ہیں واپس لے لیں، نہیں تو ہم تم کو کافر یقین کرتے ہوئے تمہارے خلاف جہاد کریں گے۔

ان مجنونانہ باتوں کی طرف سے چشم پوشی اختیار کر کے سیدنا علی رضی اللہ عنہ ملک شام پر حملہ آور ہونے کے لیے روانہ ہونے ہی کو تھے کہ سیدنا عبداللہ بن خباب صحابی رضی اللہ عنہ کے شہید ہونے کی خبر پہنچی، جس کی تفصیل اس طرح ہےکہ،

سیدنا عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کسی سفر میں تھے کہ نہروان کے قریب ہو کر گزرے اور خوارج کی ایک جماعت کو معلوم ہوا کہ یہ صحابی ہیں، انہوں نے آ کر سوال کیا کہ آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کی نسبت کیا کہتے ہیں؟

سیدنا عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ وہ دونوں بہت اچھے اور خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور نیک بندے تھے، پھر خوارج نے دریافت کیا آپ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اول اور آخر زمانہ کی نسبت کیا کہتے ہیں؟

سیدنا عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ وہ اول سے آخر تک حق پرست اور حق پسند تھے، پھر خوارج نے پوچھا کہ علی رضی اللہ عنہ کی نسبت حکمین کے مقرر کرنے سے پہلے اور حکمین کے مقرر کرنے کے بعد آپ کا کیا خیال ہے؟

انہوں نے جواب دیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تم لوگوں سے زیادہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے والے ہیں۔

خوارج نے یہ سنتے ہی طیش میں آ کر سیدنا عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی اور ان کے ہمراہیوں کو قتل کر ڈالا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب یہ خبر سنی تو تحقیق حال کے لیے حارث بن مرہ کو روانہ کیا، خوارج نے ان کو بھی مار ڈالا، ساتھ ہی خبر پہنچی کہ خوارج بلا دریغ ہر اس شخص کو جو ان کا ہم خیال و ہم عقیدہ نہ ہو قتل کر ڈالتے ہیں، اب ان لوگوں کو جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے یہ فکر ہوئی کہ اگر ہم شام کے ملک کی طرف گئے تو خوارج کوفہ و بصرہ وغیرہ تمام عراق پر قابض و متصرف ہو کر ہمارے اہل و عیال کو قتل کر دیں گے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی یہ خیال کیا کہ اگر خوارج نے کوفہ و بصرہ پر قبضہ کر لیا تو پھر ملک شام پر حملہ آوری بجائے مفید ہونے کے مضر ثابت ہو گی، چنانچہ جنگ شام کو ملتوی کر کے خوارج کی طرف کوچ کیا اور لشکر خوارج کے قریب پہنچ کر ان کے پاس پیغام بھیجا

تم میں سے جن لوگوں نے ہمارے بھائیوں کو قتل کیا ہے ان کو ہمارے سپرد کر دو تاکہ ہم ان کو قصاص میں قتل کر دیں اور تم کو تمہارے حال پر چھوڑ کر اہل شام کی طرف روانہ ہوں، اس عرصہ میں جب تک کہ ہم جنگ اہل شام سے فارغ ہوں ممکن ہے کہ خدائے تعالیٰ تم کو راہ راست پر لے آئے

اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کئی بزرگ صحابیوں کو یکے بعد دیگرے خوارج کو نصیحت اور وعظ و پند کرنے کے لیے روانہ کیا اور خوارج کے وفود کو بلا کر خود بھی نصیحت کی کہ غلطی حکمین کے مقرر کرنے میں اگر ہوئی تو باعث اصلی تم ہی لوگ تھے، اب جو کچھ گزرا اس کو فراموش کر دو اور ہمارے ساتھ شامل ہو کر اہل شام سے لڑنے چلو۔

خوارج نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ بے شک ہم لوگوں نے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی خلاف ورزی کی اور کافر ہوئے، لیکن توبہ کر کے پھر مسلمان ہو گئے، اب تم بھی جب تک گناہ کا اقرار کر کے توبہ نہ کرو گے کافر رہو گے اور ہم تمہاری مخالفت میں کوئی کوتاہی نہ کریں گے،  سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ: میں اللہ پر ایمان لایا، ہجرت کی، خدا کی راہ میں جہاد کیا، میں کس طرح اپنے آپ کو کافر کہوں؟

آخر سیدنا علی رضی اللہ عنہ خود لشکر خوارج کی طرف تشریف لے گئے اور ان کو وعظ و پند فرمانے لگے، خوارج کے سرداروں نے یہ دیکھ کر ہمارے عوام پر کہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تقریر کا اثر نہ ہو جائے، بلند آواز سے اپنے لوگوں کو ہدایت کی کہ علی رضی اللہ عنہ کی باتوں کو ہرگز ہرگز نہ سنو، نہ ان سے باتیں کرو، بلکہ اللہ کی ملاقات کے لیے دوڑو، یعنی لڑائی شروع کر دو۔

یہ حالت دیکھ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ واپس تشریف لے آئے اور اپنے لشکر کو مرتب فرما کر ہر حصہ پر سردار مقرر کئے اور سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو امان کا جھنڈا دے کر فرمایا کہ تم اس جھنڈے کو لے کر ایک بلند مقام پر کھڑے ہو جاؤ اور بلند آواز سے اعلان کر دو کہ جو شخص بغیر جنگ کئے ہوئے چلا آئے گا اس کو امان دی جائے گی اور جو شخص کوفہ یا مدائن کی طرف چلا جائے گا وہ بھی محفوظ رہے گا، اس اعلان کو سن خوارج کے لشکر سے مروہ بن نوفل اشجعی پانچ سو سواروں کے ساتھ جدا ہو گیا، کچھ لوگ کوفہ کی طرف چل دئیے، کچھ مدائن کی طرف روانہ ہوئے، کچھ امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل ہو گئے، غرض خوارج کے لشکر میں ایک تہائی سے بھی کم آدمی باقی رہ گئے، ان پر حملہ کیا گیا اور سب کو گھیر کر تہ تیغ کیا گیا، عبداللہ بن وہب، زید بن حصین، حرقوص بن زہیر، عبداللہ بن شجر، شریح بن اوفی وغیرہ خوارج کے تمام بڑے بڑے سردار مارے گئے، صرف نو آدمی خوارج کے زندہ بچ کر فرار ہوئے،  باقی سب میدان جنگ میں لڑ کر مارے گئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ خارجیوں کی لاشوں کو بغیر دفن کئے ہوئے اسی طرح میدان میں چھوڑ کر واپس ہوئے، اس لڑائی میں بظاہر خارجیوں کا پورے طور پر استیصال ہو چکا تھا اور اب کوئی خطرہ ان کی طرف سے باقی نہ رہا تھا

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جنگ نہروان سے فارغ ہو کر ملک شام کا عزم فرمایا تو اشعث بن قیس نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ فی الحال چند روز کے لیے شام کے قصد کو ملتوی کر کے آرام کرنے کا موقع دیجئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس بات کو ناپسند فرمایا اور مقام نخیلہ میں آ کر قیام کیا اور حکم دیا کہ کوئی شخص کوفہ میں نہ جائے، جب تک اہل شام پر فتح مندانہ ہو کر واپس نہ آئے،  نخیلہ کے قیام میں لوگوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی اور لشکر گاہ کو خالی چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس طرح لشکرگاہ کو خالی دیکھ کر خود بھی کوفہ میں تشریف لے آئے اور سرداروں کو جمع کر کے اس سستی اور تن آسانی کی وجہ دریافت کی، بہت ہی کم لوگوں نے شام پر حملہ آوری کے لیے آمادگی ظاہر کی، باقی خاموش رہے، پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کو جمع کر کے تقریر کی اور ان کو جنگ شام کے لیے ترغیب دی، مگر سب نے خاموشی سے اس تقریر کو سنا اور کسی قسم کی آمادگی و مستعدی کا مطلق اظہار نہ کیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ لوگوں کی اس سرد مہری کو دیکھ کر مجبوراً خاموش ہو گئے اور ملک شام پر حملہ آور نہ ہو سکے۔

مصرکی حالت

جیسا کہ اوپر تحریر ہو چکا ہے کہ جنگ صفین کے وقت کے مصر کے عامل محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ تھے اور وہ اس لڑائی میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حمایت اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں کوئی خدمت انجام نہ دے سکے تھے، کیونکہ وہ امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خیرخواہوں کے ساتھ معرکہ آرائی اور اندرونی جھگڑوں میں گرفتار تھے، ہواخواہانِ عثمانؓ نے معاویہ بن حدیج کو اپنا سردار بنا کر باقاعدہ مقابلہ اور معرکہ آرائی شروع کر دی اور ان کو کئی معرکوں میں کامیابی بھی حاصل ہو گئی تھی

جنگ صفین سے فارغ ہو کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اول مالک اشتر نخعی کو جزیرہ کی حکومت پر مامور کر کے بھیجا، لیکن چند روز کے بعد مالک کو مصر کی گورنری پر نامزد کر کے روانہ کیا، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے جب یہ خبر سنی کہ مالک اشتر مصر کی حکومت پر مامور ہو کر آ رہا ہے تو ان کو سخت ملال ہوا، اسی طرح سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس خبر کو سنا تو وہ بھی بہت فکر مند ہوئے، کیونکہ وہ مالک اشتر کو صاحب تدبیر شخص سمجھتے اور جانتے تھے کہ مالک اشتر کے مصر پر قابض ہونے کے بعد مصر کا معاملہ بہت تکلیف دہ اور خطرناک صورت اختیار کر لے گا، مگر اتفاق کی بات کہ مالک اشتر کا مصر میں پہنچنے سے پہلے ہی راستہ میں انتقال ہو گیا اور محمد بن ابی بکرؓ مصر پر بدستور قابض و متصرف رہے

مالک اشتر کے مرنے کی خبر سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ ہم نے مالک اشتر کو مصر کی حکومت پر اس لیے نامزد نہیں کیا تھا کہ ہم تم سے ناراض تھے، بلکہ اس کا تقرر محض اس لیے عمل میں آیا تھا کہ وہ بعض سیاسی امور کو قابلیت سے انجام دے سکتا تھا جس کی حکومت مصر کے لیے ضرورت تھی، اب جب کہ اس کا راستے ہی میں انقال ہو گیا تو ہم تم ہی کو مصر کی حکومت کے لیے بہتر شخص سمجھتے ہیں، تم کو چاہیے کہ دشمنوں کے مقابلہ میں جرأت و استقلال سے کام لو، اس خط کے جواب میں محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ میں آپ کا تابع فرمان ہوں اور آپ کے دشمنوں سے لڑنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہوں

یہ واقعات حکمین کے فیصلہ سنانے سے پہلے وقوع پذیر ہو چکے تھے، جب مقام اذرح میں حکمین کے فیصلے کا اعلان ہو گیا تو اہل شام نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ تسلیم کر کے ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی، اس سے ان کی قوت و شوکت میں پہلے سے اضافہ ہو گیا اور انہوں نے معاویہ بن حدیج سے خط و کتابت کر کے اس جماعت کی ہمت افزائی کی جو محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے برسر پر خاش تھی، انہوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے اعانت و امداد طلب کی، یہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا منشا تھا، چنانچہ انہوں نے عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کو چھ ہزار کی جمعیت کے ساتھ مصر کی طرف روانہ کیا اور ایک خط بھی محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے نام لکھ دیا، عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے مصر کے قریب پہنچ کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا خط مع اپنے خط کے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے یہ دونوں خط سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس کوفہ میں بھیج دئیے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کر کے بہت کچھ ترغیب دی، مگر دو ہزار سے زیادہ آدمی مصر کی مہم کے لیے تیار نہ ہوئے، آخر ان ہی دو ہزار کو مالک بن کعب کی سرداری میں مصر کی جانب روانہ کیا۔ ادھر عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے مقابلہ پر محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے دو ہزار کی جمعیت کنانہ بن بشر کی سرداری میں روانہ کر دی تھی، کنانہ بن بشر لشکر شام کے مقابلہ میں شہید ہو گئے، ان کے ہمراہی کچھ مارے گئے، کچھ ادھر ادھر بھاگ گئے

اس شکست کا حال سن کر محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے خود میدان جنگ کا قصد کیا، لیکن ان کے ہمراہیوں پر اہل شام کا کچھ ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ بغیر لڑے ان کا ساتھ چھوڑ کر علیحدہ ہو گئے، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو تنہا پا کر میدان جنگ سے واپس آ کر جبلہ بن مسروق کے مکان میں پناہ گزیں ہوئے، لشکرِ شام اور معاویہ بن حدیج کے ہمراہیوں نے آ کر جبلہ بن مسروق کے مکان کا محاصرہ کر لیا، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ زندگی سے مایوس ہو کر نکلے اور دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے گرفتار ہوئے، معاویہ بن حدیج نے ان کو قتل کر کے ایک مردہ گدھے کی کھال میں بھر کر جلا دیا۔

اس حادثہ کی خبر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے جاسوس عبدالرحمن بن شبیب فزاری نے شام سے آ کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سنائی، آپ نے اسی وقت مالک بن کعب کے واپس بلانے کےلئے آدمی بھیجا، ادہر مالک بن کعب نے تھوڑا ہی راستہ طے کیا تھا کہ حجاج بن برک بن عبداللہ عنمی انصاری مصر سے آتے ہوئے راستے میں ملے، انہوں نے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے مارے جانے اور عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے مصر پر قابض ہونے کا حال سنایا، اتنے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کو جمع کر کے ایک تقریر فرمائی اور ان کو ملامت کی کہ تمہاری ہی سستی اور غفلت کے سبب مصر کا ملک ہاتھ سے جاتا رہا، مگر اس تقریر کو سن کر بھی اہل کوفہ خاموش رہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مصر اور شام دونوں کا خیال چھوڑ دیا، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ۳۸ ھ میں مصر کے اندر مارے گئے تھے

دوسرے صوبوں پر بھی قابض ہونے کی کوشش

مصر پر قبضہ کرنے کے بعد سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوصلے پہلے سے زیادہ ترقی کر گئے،  مصر کے بعد انہوں نے بصرہ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حکومت سے نکالنے کی کوشش کی، بصرہ کی حالت بھی مصر سے مشابہ تھی، واقعہ جمل کی وجہ سے بہت سے اہل بصرہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ناخوش اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خون کا معاوضہ طلب کرنا ضروری سمجھتے تھے، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن الحضرمی کو بصرہ کی طرف روانہ کیا اور سمجھایا کہ ان لوگوں کو جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے خوش نہیں ہیں اور خون عثمان کے مطالبہ کو ضروری سمجھتے ہیں اپنی طرف جذب کریں اور ان کی تالیف قلوب میں پوری کوشش عمل میں لا کر بصرہ پر قابض ہو جائیں

ابن حضرمی جب بصرہ پہنچے تو وہاں ان دنوں سیدنا عبداللہ بن عباس حاکم بصرہ موجود نہ تھے،  وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ہوئے تھے، اس لیے عبداللہ بن الحضرمی کے لیے یہ بہت اچھا موقع تھا، چنانچہ بصرہ میں ایک طاقتور جمعیت ان کے ساتھ شامل ہو گئی۔

یہ خبر جب کوفہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچی تو انہوں نے اعین بن ضبیعہ کو یہ ہدایت کر کے بھیجا کہ جس طرح ممکن ہو ابن الحضرمی کے گرد جمع ہونے والے لوگوں میں نا اتفاقی اور پھوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرو، چنانچہ اعین بن ضبیعہ کو اپنی کوشش میں کامیابی حاصل ہوئی، عبداللہ بن الحضرمی بصرہ میں ۳۸ ھ کے آخری ایام میں مقتول ہوئے۔

۳۹ ھ میں اہل فارس نے یہ دیکھ کر بصرہ کے لوگوں میں اختلاف موجود ہے اور وہاں کچھ لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہمدرد ہیں تو کچھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہمدرد بھی پائے جاتے ہیں،  بغاوت اختیار کر کے اپنے حاکم سہل بن حنیف کو نکال دیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ حاکم بصرہ کو لکھا کہ زیاد کو فارس کی حکومت پر روانہ کر دو، چنانچہ زیاد نے فارس میں جا کر اہل فارس کو بزور شمشیر سیدھا کر دیا۔

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان حالات کا جبکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینے اور ان کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے لوگ آمادہ نہ ہوئے تھے اور جا بجا ان کے خلاف بغاوتوں کی سازشوں کے سامان نظر آتے تھے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنی سخاوت، درگزر، چشم پوشی، احسان، قدردانی، مآل اندیشی سے کام لینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا، مدینہ، طائف اور یمن وغیرہ سے لوگ کھنچ کھنچ کر دمشق میں جمع ہونے لگے

انہوں نے نعمان بن بشیر کو عین التمر کی طرف بھیجا

وہاں کے والی مالک بن کعب کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوئی امداد نہ پہنچی اور نعمان نے عین التمر کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔

سفیان بن عوف کو ایک زبردست وجمعیت دے کر مدائن کی طرف روانہ کیا، سفیان بن عوف نے انبار اور مدائن وغیرہ کے علاقوں سے مال و اسباب لوٹ کر اور جس قدر خزانہ مل سکا سب لے کر دمشق کا رخ کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہ سن کر تعاقب کے لیے نکلے مگر سفیان بن عوف ہاتھ نہ آئے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت صرف عراق و ایران تک، اسی طرح سیدنا معاویہ نے بسر بن ابی ارطاۃ کو حجاز و یمن کی طرف روانہ کیا، اہل مدینہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت اختیار کی، اس کے بعد اہل مکہ اور اہل یمن نے بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی اور عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو یمن کے دارالسلطنت صنعاء سے نکال دیا۔

غرض ۴۰ ھ کے ابتداء میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت یمن، حجاز، شام، فلسطین، مصر وغیرہ ممالک پر قائم ہو چکی تھی اور ان مقبوضہ ممالک کی حکومت میں کسی قسم کی کمزوری و اضمحلال کے آثار بھی نہیں پائے جاتے تھے، نہ کسی بغاوت اور اندرونی مخالفت کا ان کو اندیشہ تھا۔

مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ دونوں شہروں کو غیر جانب دار اور آزاد چھوڑ دیا گیا تھا، یعنی ان شہروں میں نہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حکومت تھی، نہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی اور اس پر دونوں حضرات رضا مند ہو گئے تھے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حکومت عراق وایران پر قائم تھی، مگر عراق میں عربی قبائل کی ایک بڑی تعداد ایسی تھی جو ان کی حکومت کے ساتھ دلی ہمدردی نہ رکھتے تھے، اسی طرح ایران میں بھی سازشوں اور بغاوتوں کا سلسلہ جاری تھا، ایران کے مجوسی لوگ اپنی گئی ہوئی سلطنت کے دوبارہ قائم کرلینے کے خواب ابھی تک دیکھ رہے تھے اور کسی موقع کو فوت ہونے نہ دیتے تھے۔

کوفہ اور بصرہ جو دو مرکزی شہر سمجھے جاتے تھے خود ان میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جن کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ہمدردی تھی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی شجاعت اور بلند ہمتی سے سب کچھ کرنا چاہتے اور اپنی خلافت کو تمام عالم اسلامی کی ایک ہی شنہشاہی قائم کرنے کے خواہش مند تھے، لیکن ان کے ساتھیوں کی طرف سے عموماً پست ہمتی اور نافرمانی کا اظہار ہوتا تھا، جس کی وجہ سے وہ مجبور تھے۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں عجمی لوگ زیادہ تھے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج میں عربی لوگوں کی کثرت تھی، حجاز و یمن کی حکومت قبضہ میں آجانے سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حیثیت و اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ گئی تھی، تاہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ذاتی حیثیت و شجاعت اور ان کی بزرگی و عظمت اس قدر بلند پایہ تھی کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان کی ہمسری کے دعوے میں اپنے آپ کو کمزور پاتے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ہمیشہ خائف رہتے تھے۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بصرہ سے رخصت ہونا

انہیں ایام یعنی ۴۰ ھ کے ابتدائی ایام میں ایک اور ناگوار واقعہ پیش آیا، یعنی سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہو کر بصرہ کی حکومت چھوڑ کر مکہ کی طرف چلے گئے۔

اس ناگوار واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے کہ بصرہ سے ابوالاسود نے سیدنا عبداللہ بن عباس کی جھوٹی شکایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ لکھ کر بھیجی کہ انہوں نے بیت المال کے مال کو آپ کی اجازت کے بغیر خرچ کر ڈالا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابوالاسود کو شکریہ کا خط لکھا کہ اس قسم کی اطلاع دینا اور عاملوں کی بے راہ روی سے آگاہ کرتے رہنا ہمدردی وعقیدت کی دلیل ہے اور سیدنا عبداللہ ابن عباس کو لکھا کہ ہمارے پاس اس قسم کی اطلاع پہنچی ہے، تم جواب میں کیا کہتے ہو؟ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے خط میں ابوالاسود کا حوالہ نہیں دیا گیا تھا۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے جواباً لکھا کہ آپ کو جو خبر پہنچی ہے وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے، میں نے جو مال خرچ کیا ہے وہ میرا ذاتی مال تھا، اس کو بیت المال سے کوئی تعلق نہ تھا۔ سیدنا علی نے دوبارہ خط لکھا کہ اگر وہ تمہارا ذاتی مال تھا تو یہ بتاؤ کہ وہ تم کو کہاں سے اور کس طرح حاصل ہوا تھا اور تم نے اس کو کہاں رکھا تھا۔؟

اس خط کے جواب میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ میں ایسی گورنری سے باز آیا، آپ جس کو مناسب سمجھیں بصرہ کا عامل مقرر کر کے بھیج دیں،  میں نے جو مال خرچ کیا وہ میرا ذاتی مال تھا اور میں اس کو اپنے اختیار سے خرچ کرنے کا اختیار رکھتا تھا، یہ لکھ کر وہ اپنا سامان درست کر کے بصرہ سے روانہ ہو گئے اور مکہ معظمہ پہنچ گئے۔

سیدنا علیؓ کی شہادت

انہیں ایام میں جب سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بصرہ کی حکومت چھوڑ کر مکہ معظمہ میں چلے آئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بھائی سیدنا عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ناراض ہو کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کا معقول روزینہ مقرر کر دیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا عقیل کے اس طرح جدا ہو جانے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے جانے کا سخت ملال ہوا اور آپ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف جنگی تیاریوں کو ضروری سمجھا، کوفیوں کو شام پر حملہ کرنے کی ترغیب دی اور اس مرتبہ کوفیوں پر آپ کی ترغیب کا یہ اثر ہوا کہ ساٹھ ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر اس امر کی بیعت کی کہ ہم تازیست آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں گے اور مارنے مرنے پر آمادہ رہیں گے،  آپ ان ساٹھ ہزار کے علاوہ اور لوگوں کو بھی فراہم کرنے اور سامان حرب درست کرنے میں مصروف تھے، خارجیوں کی فوجی طاقت جنگ نہروان میں زائل ہو چکی تھی، بظاہر ان کی طرف سے کوئی اندیشہ باقی نہ رہا تھا

خوارج کا خطرناک منصوبہ

اوپر بیان ہو چکا ہے کہ جنگ نہروان میں خوارج کے صرف نو آدمی بچ گئے تھے، ان نو آدمیوں نے جو خوارج میں امامت و سرداری کی حیثیت رکھتے تھے، اول فارس کے مختلف مقامات میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوتوں اور سازشوں کو کامیاب بنانے کی کوششوں میں حصہ لیا، مگر جب کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی تو عراق وحجاز میں آ کر ادھر ادھر آوارہ پھرنے لگے۔

آخر مکہ معظمہ میں عبدالرحمن بن ملجم مرادی، برک بن عبداللہ تمیمی، عمروبن بکر تمیمی، تین شخص جمع ہوئے اور آپس میں مقتولین نہروان کا ذکر کرکے دیر تک افسوس کرتے رہے، پھر تینوں اس رائے پر متفق ہوئے کہ آؤ! تین سب سے بڑے سرداروں کو جنہوں نے عالم اسلام کو پریشان کر رکھا ہے قتل کر ڈالیں، تینوں نے باہم عہدو پیمان کیا اور یہ قرار پایا کہ عبدالرحمن ابن ملجم مرادی مصری سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اور برک بن عبداللہ تمیمی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو اور عمروبن بکر تمیمی سعدی عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ حاکم مصر کو قتل کرے اور یہ تینوں قتل ایک ہی تاریخ اور ایک ہی وقت میں وقوع پزیر ہوں، چنانچہ ۱۶ رمضان المبارک یوم جمعہ نماز فجر کا وقت مقرر ہوا، تینوں آدمی کوفہ، دمشق اور مصر کی طرف روانہ ہو گئے۔

جب رمضان المبارک کی مقررہ تاریخ آئی تو برک بن عبداللہ تمیمی نے دمشق کی مسجد میں داخل ہو کر جب کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نماز فجر کی امامت کرا رہے تھے، تلوار کا ایک ہاتھ مارا اور یہ سمجھ کر کہ تلوار کا ہاتھ کاری لگا ہے بھاگا، لیکن گرفتار کر لیا گیا، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ زخمی تو ہوئے مگر زخم مہلک نہ تھا، چند روز کے علاج معالجہ سے اچھا ہو گیا۔ برک کو ایک روایت کے مطابق اسی وقت اور دوسری روایت کے موافق کئی برس کے بعد قید رکھ کر قتل کیا گیا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد مسجد میں اپنے لیے محفوظ جگہ بنوائی اور پہرہ بھی مقرر کیا۔

اسی مقرر تاریخ اور مقررہ وقت میں عمروبن بکر نے مصر کی مسجد میں نماز فجر کی امامت کرتے ہوئے خارجہ بن ابی حبیبہ بن عامر کو عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سمجھ کر تلوار کے ایک ہی وار میں قتل کر دیا، اس روز اتفاقاً عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنی جگہ خارجہ بن حبیبہ ایک فوجی افسر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا، عمروبن بکر نے سمجھا کہ یہی عمروبن العاص رضی اللہ عنہ ہیں اور ان کو قتل کیا۔

اسی روز کوفہ میں عبدالرحمن بن ملجم نے نماز فجر کے وقت مسجد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا اور اس زخم کے صدمہ سے دو روز کے بعد ۱۷ رمضان المبارک ۴۰ ھ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔

تفصیل اس حادثۂ جانکاہ کی یہ ہے کہ عبدالرحمن بن ملجم کوفہ میں آکر اپنے دوستوں سے ملا، مگر کسی پر اپنے ارادہ کو ظاہر نہ کیا، آخر خوب سوچ سمجھ کر اپنے ایک دوست شبیب بن بجرۃ اشجعی پر اپنا راز ظاہر کیا اور اس سے امداد چاہی اور کہا کہ ہم کو مقتولین نہروان کے عوض سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا چاہیے، اول تو شبیب نے اس ارادہ سے باز رکھنا چاہا، پھر کچھ متامل ہوا،  اور آخر کار ابن ملجم کے کام میں امداد کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔

قبیلہ تمیم کے دس آدمی جو خارجی ہو کر لشکر خوارج میں شامل تھے، جنگ نہروان میں مقتول ہوئے تھے، ان مقتولین کے عزیزوں اور رشتہ داروں کو جو کوفہ میں رہتے تھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے عناد اور ملال تھا۔ ابن ملجم ان لوگوں سے اکثر ملتا اور اکثر ان کے گھروں میں آتا جاتا رہتا تھا، اس نے ایک نہایت حسین و جمیل عورت دیکھی جس کا نام قطام تھا، اس عورت کا باپ اور بھائی دونوں انہیں دس مقتولین میں شامل تھے، ابن ملجم نے قطام کے پاس شادی کا پیغام بھیجا قطام نے کہا کہ پہلے مہر ادا کر دو تو میں نکاح کے لیے تیار ہوں، جب اس نے مہر کی مقدار دریافت کی تو اس نے کہا کہ تین ہزار درہم، ایک لونڈی، ایک غلام اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا کٹا ہوا سر میرا مہر ہے۔ ابن ملجم تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قتل کی نیت سے آیا ہی تھا، اس نے کہا میں صرف آخری شرط پوری کر سکتا ہوں، باقی شرائط کی بجا آوری سے اس وقت مجبور ہوں۔

قطام نے کہا کہ اگر تم آخری شرط کو پوری کر دو تو میں باقی چیزوں کو خود چھوڑتی ہوں، ابن بلجم نے کہا کہ اگر تو چاہتی ہے کہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قتل پر قادر ہو جاؤں تو اس راز کو کہیں فاش نہ کرنا، قطام نے راز کی حفاظت کا وعدہ کیا اور اپنے رشتہ داروں میں سے ایک شخص وردان نامی کو ابن ملجم کے ساتھ مقرر کیا کہ وہ ابن ملجم کی مدد کرے۔

آخر مقررہ تاریخ یعنی ۱۶ رمضان المبارک جمعہ کا دن آ پہنچا اور ابن ملجم، شبیب بن بجرہ اور وردان تینوں پچھلی رات سے مسجد کوفہ میں آئے اور دروازہ کے قریب چھپ کر بیٹھ گئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ لوگوں کو حسب عادت نماز کے لیے آوازیں دیتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے، سب سے پہلے وردان نے بڑھ کر تلوار کا وار کیا، مگر اس کی تلوار دروازہ کی چوکھٹ یا دیوار پر پڑی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ آگے بڑھ گئے، ابن ملجم نے فوراً آگے لپک کر آپ کی پیشانی پر تلوار کا ہاتھ مارا جو بہت کاری پڑا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے زخم کھا کر حکم دیا کہ ان کو پکڑو، لوگ نماز کے لیے مسجد میں آ چکے تھے، یہ حکم سنتے ہی دوڑ پڑے، وردان اور شبیب دونوں مسجد سے نکل کر بھاگے، مگر ابن ملجم مسجد سے باہر نہ نکل سکا وہ مسجد ہی کے ایک گوشہ میں چھپا اور گرفتار کر لیا گیا، شبیب کو ایک شخص حضرمی نے پکڑا، مگر وہ چھوٹ کر بھاگ گیا اور ہاتھ نہ آیا۔ وردان بھاگ کر اپنے گھر کے قریب پہنچ چکا تھا کہ لوگوں نے جا لیا اور وہیں قتل کر دیا۔

ابن ملجم گرفتار ہو کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا، آپ نے حکم دیا کہ اگر میں اس زخم سے مر جاؤں تو تم بھی اس کو قتل کر دینا اور اگر میں اچھا ہو گیا تو خود جو مناسب سمجھوں گا کروں گا، پھر آپ نے بنو عبدالمطلب کو وصیت کی کہ میرے قتل کو مسلمانوں کی خوں ریزی کا بہانہ نہ بنانا، صرف اسی ایک شخص کو جو میرا قاتل ہے قصاص میں قتل کر دینا

پھر سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے حسن رضی اللہ عنہ!  اگر اس زخم کے صدمہ سے میں مر جاؤں تو تم بھی اس کی تلوار سے ایسا ہی ایک وار کرنا کہ اس کا کام تمام ہو جائے اور مثلہ ہرگز نہ کرنا کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے

ابن ملجم کی تلوار کا زخم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی کنپٹی تک پہنچا تھا اور تلوار کی دھار دماغ تک اتر گئی تھی، مگر آپ جمعہ کے دن تک زندہ رہے، ہفتہ کے روز ۱۷ رمضان المبارک کو آپ نے وفات پائی، آپ کے وفات پانے سے پیشتر جندب بن عبداللہ نے آ کر عرض کیا کہ آپ ہم سے جدا ہو جائیں یعنی وفات پا جائیں تو کیا ہم سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں؟

آپ نے فرمایا کہ میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہتا، تم جو مناسب سمجھنا کرنا۔

پھر حسنین کو بلا کر فرمایا کہ میں تم کو خدائے تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے اور دنیا میں مبتلا نہ ہونے کی وصیت کرتا ہوں، تم کسی چیز کے حاصل نہ ہونے پر افسوس نہ کرنا، ہمیشہ حق بات کہنا،  یتیموں پر رحم اور بے کسوں کی مدد کرنا، ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا، قرآن شریف پر عامل رہنا اور حکم خدا کی تعمیل میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہ ڈرنا۔

پھر محمد بن الحنفیہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں تم کو بھی ان ہی باتوں کی اور دونوں بھائیوں کی تعظیم مدنظر رکھنے کی وصیت کرتا ہوں، ان کا حق تم پر زیادہ ہے، ان کی منشاء کے خلاف تم کو کوئی کام نہیں کرنا چاہیے، حسنین رضی اللہ عنہ کی جانب مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم کو بھی محمد بن الحنفیہ کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک اور رعایت کے ساتھ پیش آنا چاہیے، پھر ایک عام وصیت تحریر کرانے لگےکہ وفات کا وقت آ گیا اور سوائے لا الہ الا اللہ کے دوسرا کلمہ زبان مبارک سے نہ نکلا

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی قبر کا پتہ نہیں

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ابن بلجم کو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور انہوں نے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تریسٹھ سال کی عمر اور پورے پانچ سال کی خلافت کے بعد شہید ہوئے، سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ، سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے آپ کو غسل دیا اور تین کپڑوں میں کفنایا، جن میں قمیص نہ تھی، سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے آپ کے جنازہ کی نماز پڑھائی۔

بعض روایتوں کے بموجب مسجد کوفہ میں، بعض کے موافق اپنے مکان میں، بعض کے موافق کوفہ سے دس میل کے فاصلہ پر دفن کئے گئے۔ بعض روایتوں کی بموجب سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے آپ کے جسد مبارک کو خارجیوں کے خوف سے کہ کہیں آپ کی بے حرمتی نہ کریں، نکال کر ایک دوسری قبر میں پوشیدہ طور پر دفن کیا۔

ایک اور روایت کے موافق آپ کے تابوت کو مدینہ منورہ لے جانے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب دفن کریں، اثناء راہ میں وہ اونٹ جس پر آپ کا جنازہ تھا بھاگ گیا اور پھر کہیں اس کا پتہ نہ چلا، ایک اور روایت کے موافق وہ اونٹ طے کی سر زمین میں ملا، لوگوں نے اس کو پکڑ کر آپ کا جنازہ وہیں دفن کر دیا۔

غرض آج تک اتنے بڑے اور عظیم الشان شخص کے مزار کا صحیح حال کسی کو نہ معلوم ہوا کہ کہاں ہے۔ اس کی وجہ وہی معلوم ہوتی ہے کہ خارجیوں کے خوف سے آپ کو ایسی جگہ دفن کیا گیا جس کا حال عام لوگوں کو معلوم نہ ہوا

اس میں یہ بھی ایک حکمت الہی معلوم ہوتی ہے کہ بعد میں لوگوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خدائی تک مرتبہ دینے میں تامل نہیں کیا، اگر ان کے مزار کا صحیح علم ہوتا تو اس کو لوگ شرک کی منڈی بنائے بغیر ہرگز نہ رہتے، جیسا کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ بزرگوں کی قبروں کو لوگوں نے قبلہ اور بت بنا رکھا ہے اور مسلمان کہلا کر مشرکین مکہ سے کسی حالت میں کم نظر نہیں آتے، جس کا جی چاہے سالانہ عرسوں کے موقع پر جو بزرگوں اور نیک لوگوں کی قبروں پر ہوتے ہیں، مسلم نما مشرکوں کے کرتوتوں کا تماشا جا کر دیکھ آئے۔

سیدنا علی المرتضیٰؓ کی ازواج و اولاد

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے باوقات مختلف ۹ بیویاں کیں جن سے چودہ لڑکے اور سترہ لڑکیاں پیدا ہوئیں، آپ کا پہلا نکاح سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہوا جن کے بطن سے دو لڑکے حسن و حسین رضی اللہ عنھم اور دو لڑکیاں زینب رضی اللہ عنھا اور ام کلثوم رضی اللہ عنھا پیدا ہوئیں

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے فوت ہونے کے بعد آپ نے ام البنین بنت حرام کلابیہ سے نکاح کیا، جن کے بطن سے عباس رضی اللہ عنہ، جعفر رضی اللہ عنہ، عبداللہ رضی اللہ عنہ، عثمان رضی اللہ عنہ، چار لڑکے پیدا ہوئے

تیسرا نکاح آپ نے لیلی بنت مسعود بن خالد سے کیا، جن کے بطن سے عبیداللہ رضی اللہ عنہ و ابوبکر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔

چوتھا نکاح آپ نے اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہ سے کیا، جن کے بطن سے محمد الاصغر رضی اللہ عنہ اور یحییٰ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، یہ آخرالذکر آٹھوں بھائی معرکۂ کربلا میں اپنے بھائی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شہید ہوئے

پانچواں نکاح آپ نے امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہ بن الربیع بن عبدالعزی بن عبدشمس سے کیا،  جن کی ماں زینب بنت رسول اللہ تھیں، ان کے بطن سے محمد الاوسط پیدا ہوئے۔

چھٹا نکاح آپ نے خولہ بنت جعفر سے کیا، جو قبیلہ بنو حنیفہ سے تعلق رکھتی تھیں، ان کے بطن سے محمد الاکبر پیدا ہوئے، جن کو محمد بن الحنفیہ بھی کہتے ہیں

ساتواں نکاح آپ نے صہبا بنت ربیعہ تغلبیہ سے کیا، جن کے بطن سے ام الحسن، رملۃ الکبریٰ اور ام کلثوم صغریٰ پیدا ہوئیں

آٹھواں نکاح آپ نے ام سعید بنت عروہ بن مسعود ثقفیہ سے کیا جن سے تین صاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔

نواں نکاح آپ نے بنت امراء القیس بن عدی بن کلبی سے کیا، جن کے بطن سے صرف ایک لڑکی پیدا ہو کر کم سنی میں فوت ہو گئیں۔

مندرجہ بالا لڑکیوں کے سوا اور بھی لڑکیاں تھیں جن کے نام نہیں معلوم ہو سکے، ایک لڑکے آپ کے عون بن علی بھی تھے، جن کی نسبت بیان کیا گیا کہ وہ بھی اسماء بنت عمیس کے بطن سے پیدا ہوئے تھے

سلسلہ نسب آپ کا صرف حسن رضی اللہ عنہ، حسین رضی اللہ عنہ، محمد بن الحنفیہ رضی اللہ عنہ،  عباس رضی اللہ عنہ اور جعفر رضی اللہ عنہ سے چلا، باقیوں کی نسل باقی نہ رہی

خلافتِ علوی پر ایک نظر

سیدنا علی رضی اللہ عنہ اُن عالی جاہ و بلند پایہ بزرگوں کے خاتم تھے، جن کے بعد کوئی شخص باقی نہ رہا جس کی عزت و عظمت تمام عالم اسلامی میں مسلم ہو اور وہ جرات و ہمت کے ساتھ نہی عن المنکر اور امر بالمعروف کر سکے، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حال سنا تو فرمایا: اب عرب لوگ جو چاہیں سو کریں، کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعد ایسا کوئی باقی نہ رہا کہ ان کو کسی برے کام سے منع کرے گا

اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا کام ترک کر دیا تھا، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ایک ناصح اور واعظ کی حیثیت سے لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں شامل تھے جو لوگوں کو نبیوں اور پیغمبروں کی طرح حکم دیتے تھے

سیدنا علی رضی اللہ عنہ پالیسی اور چالاکی سے قطعاً پاک اور مبرا تھے، ان کے نزدیک حق اور سچ کو تسلیم کرنا سب سے زیادہ ضروری تھا، وہ ابتداء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو سب سے زیادہ حق دار خلافت سمجھتے تھے، لہذا انہوں نے نہایت صفائی کے ساتھ اس کا اظہار کر دیا اور چند روز تک سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی، پھر ان ہی ایام میں جب ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ان کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج پر آمادہ کرنا چاہا تو انہوں نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو نہایت حقارت کے ساتھ جھڑک دیا، کیونکہ وہ اس فعل کو برا جانتے تھے، جب ان کی سمجھ میں یہ بات آ گئی کہ خلافت کے معاملہ میں کسی رشتہ داری کو کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے اور ضروری باتیں قابل لحاظ ہیں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد خلافت کے مستحق تھے تو خود بخود آ کر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت ہو گئے اور بیعت ہونے کے بعد وہی سب سے زیادہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے معین و مددگار اور دل سے فرماں بردار تھے۔

فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں سب سے زیادہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مشوروں کی قدر کرتے اور اعاظم امور میں عموماً ان ہی کی رائے کو قابل عمل جانتے تھے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بھی انہوں نے ہمیشہ سچے اور اچھے مشورے دیے اور اس بات کی مطلق پرواہ نہ کی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ان کے مشورے پر عمل کرتے ہیں یا دوسرے کی بات مانتے ہیں، انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بعض کاموں کو قابل اعتراض پایا تو بلا تأمل ان پر اعتراض بھی کیا۔

لوگوں نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف صدائے احتجاج بند کی تو جہاں تک ان کے نزدیک یہ احتجاج جائز تھا، وہاں تک انہوں نے اس کو اطمینان کی نظر سے دیکھا اور جس قدر حصہ انہوں نے جائز نہ سمجھا اسی قدر اس کی مخالفت کی اور روکنا چاہا، مدینہ منورہ میں جب بلوائیوں کا زور و شور دیکھا اور ناشدنی علامات ظاہر ہوئے تو انہوں نے چالاکی اور چالبازی کے ساتھ اپنی پوزیشن صاف دکھانے کے لیے کوئی تدبیر نہیں کی بلکہ صرف اپنی پاک طینتی اور صاف باطنی پر مطمئن رہے۔

شہادت عثمانی رضی اللہ عنہ کے بعد جب لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہی تو چونکہ وہ اب اپنے آپ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے زیادہ اس عہدہ جلیلہ کا مستحق سمجھتے تھے، لہذا انہوں نے کسی کسر نفسی اور تکلف کو کام میں لانے اور انکار کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے وقت ان کو توقع تھی کہ مجھ کو خلیفہ منتخب کیا جائے گا، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی اس احتیاط نے کہ خلافت اسلامی میں کسی رشتہ داری کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی قابلیت کو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں موءخر کر دیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اقرار پر ثابت قدم رہنا ضروری سمجھا اور بلا اظہار مخالفت بیعت عثمانی میں داخل ہو گئے

غرض سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے تمام کاموں سے آفتاب نصف النہار کی طرح یہ امر ثابت ہے کہ وہ جس بات کو حق اور سچ جانتے تھے، اس کے حق اور سچ کہنے میں کسی مصلحت اور پالیسی کی وجہ سے تامل کرنا ہرگز ضروری نہ سمجھتے تھے، ان کا چہرہ ان کے قلب کی تصویر اور ان کا ظاہر ان کے باطن کا آئینہ تھا، وہ ایک شمشیر برہنہ تھے اور حق کو حق کہنے میں کبھی نہ چوکتے تھے، اگر ان کی جگہ کوئی دوسرا شخص ہوتا تو وہ اپنے آپ کو قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت بہت کچھ بچا کر رکھتا اور بیعت خلافت کے وقت بڑی بڑی احتیاطیں عمل میں لاتا، اسی طرح بیعت خلافت کے بعد عام افواہوں کے اثر کو زائل کرنے اور بنو امیہ کی مخالفانہ کوششوں کو ناکام رکھنے کی غرض سے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور مالک اشتر وغیرہ چند بلوائی سرداروں کا قصاص عثمانی میں قتل کرا دینا اور زیر سیاست لانا زیادہ کچھ مشکل نہ تھا، کیونکہ عالم اسلامی اس معاملہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تائید کے لیے مستعد تھا، لیکن ان کو ایسی پختہ شہادتیں نہ مل سکیں، جن کی بنا پر وہ ان لوگوں کو شرعاً زیر قصاص لا سکتے، لہذا انہوں نے تامل فرمایا اور اس تامل سے جو فتنے پیدا ہوئے ان سب کا مقابلہ کیا، مگر اپنے نزدیک جس کام کو ناکردنی سمجھا تھا اس کو ہرگز نہ کیا۔

خلافتِ علوی پر ایک نظر

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جن لوگوں سے واسطہ پڑا، ان میں زیادہ تر ایسے لوگ شامل تھے جو چالاکیوں، مصلحت اندیشیوں اور چال بازیوں سے کام لینا جانتے تھے، وہ خالص اسلامی کرہ ہوائی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ سے پیدا ہو کر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے آخر عہد تک قائم تھا، دنیا طلبی، جاہ طلبی، نسلی و خاندانی تفوق و امتیاز اور ایران و مصر وغیرہ کے کثیر التعداد نو مسلموں کے اسلامی برادری میں شامل ہو جانے کے سبب کسی قدر غبار آلود ہونے لگا تھا، پھر ان کے زمانہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی جماعت بہت مختصر رہ گئی تھی، بڑے بڑے صاحبِ اثر اور جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنھم فوت ہو چکے تھے، جو تھوڑی سی تعداد باقی تھی وہ سب منتشر تھی، کوئی کوفہ میں تھا، کوئی بصرہ میں، کوئی دمشق میں تھا، کوئی مصر میں، کوئی یمن میں تھا، کوئی فلسطین میں، کوئی مکہ میں تھا، کوئی مدینہ میں۔

فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی ایک بڑی تعداد مدینہ منورہ میں موجود تھی اور بہت ہی کم لوگ باہر دوسرے شہروں میں ضرورتاً جاتے اور مدینہ میں واپس آتے رہتے تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مدینہ کی سکونت کو ترک کر کے کوفہ کو دارالخلافہ بنایا۔ اور سوئے اتفاق سے وہ فائدہ جو کوفہ کو دارالخلافہ بنانے میں انہوں نے سوچا تھا حاصل نہ ہوا،  ساتھ ہی اس اسلام میں حجاز کو جو اہمیت حاصل تھی، کوفہ کے دارالخلافہ ہونے سے حجاز کی حیثیت اور اہمیت کم ہو گئی جس کے سبب وہ امداد جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ملک حجاز سے حاصل ہوتی، حاصل نہ ہو سکی۔

منافقوں اور خفیہ سازشیں کرنے والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں بھی مسلمانوں کو کئی مرتبہ پریشانیوں میں مبتلا کیا، لیکن وہ اپنے پلید و ناستودہ مقاصد میں ناکام و نامراد ہی رہے، عہد صدیقی رضی اللہ عنہ اور عہد فاروقی میں یہ شریر لوگ کوئی قابل تذکرہ حرکت نہ کر سکے، عہد عثمانی میں ان کو پھر شر انگیزی کے مواقع میسر آ گئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا تمام عہد خلافت ان ہی شریروں کی شرارتوں کے پیدا کئے ہوئے ہنگاموں میں گزرا

اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اور بھی مواقع ملتے اور ان کی شہادت کا واقعہ اس قدر جلد عمل میں نہ آتا تو یقینا وہ چند روز کے بعد تمام مفسدوں کی مفسدہ پردازیوں پر غالب آ کر عالم اسلامی کو ان اندرونی ہنگامہ آرائیوں سے پاک صاف کر دیتے، کیونکہ ان کے عزم و ہمت اور استقلال و شجاعت میں کبھی کوئی فرق نہیں پایا گیا، وہ مشکلات کا مقابلہ کرنے اور ان پر غالب آنے کے لیے ہمیشہ مستعد پائے جاتے تھے، کسی وقت بھی ان کے قلب پر پوری مایوسی اور پست ہمتی طاری نہ ہو سکتی تھی اور یہ وہ بات تھی جس کی توقع کسی دوسرے شخص سے ایسے حالات میں ہرگز نہیں ہو سکتی تھی، وہ لوگوں کی دھوکہ بازیوں، چالاکیوں اور پست ہمتیوں کے متعلق بھی اب تجربہ حاصل کر چکے تھے، وہ ان باتوں سے بھی واقف ہو چکے تھے جن کے نتائج ان کی توقع کے خلاف برآمد ہوئے تھے، لیکن مشیت ایزدی اور حکم الٰہی یہی تھا کہ وہ جلد شہادت پائیں اور بنو امیہ کے لیے میدان خالی چھوڑ جائیں۔

بنو امیہ کا قبیلہ اپنے آپ کو ملک عرب کا سردار اور بنو ہاشم کو اپنا رقیب سمجھتا تھا، اسلام نے ان کے مفاخر کو مٹا اور بھلا دیا تھا، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت نے ان کو پھر چونکا دیا اور وہ اپنی کھوئی ہوئی سیادت کو واپس لانے کے لیے تدابیر سوچنے میں مصروف ہو گئے،  اور منافقوں کی سازشوں نے ان کی تدابیر کو عملی جامہ پہنانے اور کامیاب بنانے میں امداد پہنچائی، عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جو ناگوار اور ناشدنی حالات پیدا ہو چکے تھے، ان حالات کو روبہ صلاح کرنے اور پہلی حالت دوبارہ قائم کرنے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو زیادہ پریشانی اٹھانی پڑی اور وہ زیادہ وقت یعنی اپنا تمام عہد خلافت صرف کرنے پر بھی ان مشکلات پر غالب نہ ہونے پائے تھے کہ شہید ہوئے۔

لیکن یہ کہنا کہ اگر سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بعد یہ ممکن ہوتا کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ دوبارہ تخت خلافت پر متمکن ہو سکتے اور وہ پھر زمام خلافت اپنے ہاتھ میں لے لیتے تو وہ یقینا چند ہفتوں میں وہی پہلی حالت قائم کر لیتے، مگر یہ سب خیالی باتیں ہیں، مصلحت الٰہی اور مشیت ایزدی نے اسی کو مناسب سمجھا جو ظہور میں آیا۔

حضرات صحابہ کرام کے درمیان معرکہ آرائی اور غلط فہمی کا ازالہ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی معرکہ آرائیوں اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ و سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی لڑائیوں وغیرہ کو ہم لوگ اپنے زمانہ کی مخالفتوں اور لڑائیوں پر قیاس کر کے بہت کچھ دھوکے اور فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں، ہم ان بزرگوں کے اخلاق کو اپنے اخلاقی پیمانوں سے ناپنا چاہتے ہیں، حالانکہ یہ بہت بڑی غلطی ہے۔

خوب غور کرو اور سوچو کہ جنگ جمل کے موقع پر سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ نے کس عزم و ہمت کے ساتھ مقابلہ اور معرکہ آرائی کے لیے تیاری کی تھی، لیکن جب ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک حدیث یاد دلائی گئی تو کس طرح وقت کے وقت پر جب کہ ایک زبردست فوج جاں نثاروں کی ان کے قبضے میں تھی وہ میدان جنگ سے جدا ہو گئے، ان کو غیرت بھی دلائی گئی ان کو بزدل بھی کہا گیا، پھر وہ لڑائی اور میدان جنگ کو کھیل تماشے سے زیادہ نہ سمجھتے تھے، ان کی شمشیر خارشگاف ہمیشہ بڑے بڑے میدانوں کو سر کرتی رہی تھی، مگر انہوں نے کسی چیز کی بھی پرواہ دین و ایمان کے مقابلہ میں نہ کی، انہوں نے ایک حدیث سنتے ہی اپنی تمام کوششوں، تمام امیدوں، تمام اولولعزمیوں کو یک لخت ترک کر دیا۔

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالی جناب مولوی جو مسلمانوں میں بڑی عزت و تکریم کا مقام رکھتے ہیں، اگر کسی مسئلہ میں ایک دوسرے کے مخالف ہو جائیں تو برسوں مباحثوں اور مناظروں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، ایک دوسرے کی ہر طرح تذلیل و تنقیص کرتے اور بعض اوقات کچہریوں میں مقدمات دائر کر دیتے ہیں۔ گالیاں دینا اور اپنے حریف کو برا کہنا اپنا حق سمجھتے ہیں، مگر یہ سراسر محال ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک اپنی غلطی تسلیم کر لے اور اپنے حریف کی سچی بات تسلیم کر کے لڑائی جھگڑے کا خاتمہ کر دے۔

جنگ صفین اور فیصلہ حَکمین کے بعد ایک مرتبہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک استفتاء بھیجا اور فتویٰ طلب کیا کہ خنثیٰ مشکل کی میراث کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو جواب میں لکھ بھیجا کہ اس کی پیشاب گاہ کی صورت سے حکم میراث جاری ہو گا، یعنی اگر پیشاب گاہ مردوں کی مانند ہے تو حکم مرد کا ہو گا اور اگر عورت کی مانند ہے تو عورت کا حکم ہوگا

بصرہ میں جنگ جمل کے بعد آپ داخل ہوئے تو قیس بن عبادہ نے عرض کیا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وعدہ فرمایا تھا کہ میرے بعد تم خلیفہ بنائے جاؤگے، کیا یہ بات درست ہے؟

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ بات غلط ہے، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہرگز جھوٹ نہیں بول سکتا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اگر مجھ سے یہ وعدہ فرماتے تو سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو کیوں خلیفہ بننے دیتا اور کیوں ان کی بیعت کرتا۔؟

خلافتِ علوی پر ایک نظر

سیدنا علی کے معاملے میں افراط وتفریط کرنے والے گمراہ ہوگئے۔

سیدنا آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر قیامت تک حق و باطل کی معرکہ آرائی اور لڑائی کا سلسلہ جاری رہا ہے اور جاری رہے گا، رحمانی اور شیطانی دونوں گروہ دنیا میں ہمیشہ پائے گئے اور پائے جائیں گے، ارباب حق اور ارباب باطل کا وجود دنیا کو کبھی خالی نہیں چھوڑ سکتا، اور یہی حق و باطل کا مقابلہ ہے، جس کی وجہ سے نیکوں کے لیے ان کی نیکی کا اجر مرتب ہوتا ہے اور مومن کے ایمان کی قدر خدا تعالیٰ کی جناب میں کی جاتی ہے، مومنوں اور مسلمانوں کی تعریف خدائے تعالیٰ نے قرآن مجید میں {اُمَّۃً وَّسَطًا} (البقرۃ : ۲/۱۴۳) فرمائی ہے، اسلام میانہ روی سکھاتا اور افراط و تفریط کے پہلوﺅں سے بچاتا ہے

بہت سے لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں افراط و تفریط کے پہلوﺅں کو اختیار کر کے گمراہ ہو گئے ہیں، ان گمراہ لوگوں میں سے ایک گروہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے خلاف پہلو پر اس قدر زور دیا کہ اپنی مخالفت کو عداوت، بلکہ ذلیل ترین عناد کے درجہ تک پہنچا دیا اور خدائے تعالیٰ کے اس برگزیدہ بندے کو گالیاں دینے میں تامل نہ کر کے اپنی گمراہی اور خسران و خذلان میں کوئی کمی نہ رکھی، دوسرے گروہ نے ان کی محبت میں ضرورت سے زیادہ مبالغہ کر کے ان کو خدائی کے مرتبہ تک پہنچا دیا اور ایک بندے کو خدائی صفات کا مظہر قرار دے کر دوسرے پاک اور نیک بندوں کو گالیاں دینا اور برا کہنا ثواب سمجھا اور اس طرح اپنی گمراہی کو حد کمال تک پہنچا کر پہلے گروہ کا ہمسر بن گیا

اس معاملہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا وجود بہت کچھ سیدنا مسیح علیہ السلام کے وجود سے مشابہ نظر آتا ہے، کیونکہ یہودی ان کی مخالفت کے سبب گمراہ ہوئے اور عیسائی ان کی محبت و تعظیم میں مبالغہ کرنے اور ان کو خدائی تک کا مرتبہ دینے میں گمراہ ہوئے۔

سچے پکے مسلمان جس طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے معاملہ میں افراط و تفریط کے پہلوﺅں یعنی یہود و نصاریٰ کے عقائد سے بچ کر طریق اوسط پر قائم ہیں، اسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں بھی وہ خارجیوں اور شیعوں کے عقائد سے محترز رہ کر طریق اوسط پر قائم ہیں، یہ چند سطریں غالباً ایک تاریخ کی کتاب میں غیر موزوں اور تاریخ نویسی کے فرائض سے بالا تر سمجھی جائیں گی، لیکن ایسے عظیم الشان معاملہ کی نسبت جو آئندہ چل کر عالم اسلام پر نہایت قوی اثر ڈالنے والا ہے۔

ایک مسلمان کے قلم سے چند الفاظ کا نکل جانا عیب نہ سمجھا جائے گا، جب کہ واقعات تاریخی کو بلا کم و کاست لکھ دینے کے بعد مؤلف کی رائے بالکل الگ اور غیر ملتبس طور پر نظر آئے۔ جس طرح صحابہ کرام کو آج کے مسلمانوں، مولویوں اور صوفیوں پر قیاس کرنا غلطی ہے، اسی طرح ان کو عالم انسانیت سے بالا تر ہستیاں سمجھنا اور انسانی کمزوریوں سے قطعاً مبرا یقین کرنا بھی غلطی ہے، آخر وہ انسان تھے، کھانے، پینے، پہننے، سونے کی تمام ضرورتیں ان کو اسی طرح لاحق تھیں،  جس طرح تمام انسانوں کو ہوا کرتی ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا تو کہنا ہی کیا، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی اپنے انسان ہونے کا اقرار اور بشر رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہونے پر فخر تھا، ہم روزانہ اپنی نمازوں میں اشھد ان محمد عبدہ و رسولہ کہتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عبدِ خدا ہونے کا اقرار کرتے اور بندہ ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔

ہاں! ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو معصوم عن الخطاء اور جامع جمیع کمالات انسانیہ یقین کرتے اور نوع انسان کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کو سب سے بہتر کامل و مکمل نمونہ جانتے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی اقتداء میں سعادت انسانی تک پہنچنے کا طریق مانتے ہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت وہ برگزیدہ جماعت ہے جنہوں نے براہ راست، بلا توسط غیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کے نمونہ کو دیکھا اور ہدایت یاب و سعادت اندوز ہوئے، لیکن چونکہ وہ نبی نہ تھے، معصوم بھی نہ تھے، ان کی استعدادیں بھی مختلف تھیں،  لہذا ان میں ایک طرف صدیق رضی اللہ عنہ و فاروق رضی اللہ عنہ نظر آتے ہیں تو دوسری طرف ان کی جماعت میں معاویہ رضی اللہ عنہ و مغیرہ رضی اللہ عنہ بھی موجود ہیں، ایک طرف ان میں عائشہ رضی اللہ عنھا و علی رضی اللہ عنہ جیسے فقیہ موجود ہیں تو دوسری طرف ان میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ و ابن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے راوی و محدث بھی پائے جاتے ہیں، ایک طرف ان میں عمروبن العاص رضی اللہ عنہ جیسے سیاسی لوگ ہیں تو دوسری طرف ان میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ابوذر رضی اللہ عنہ جیسے متقی و زاہد بھی پائے جاتے ہیں، پس مختلف استعدادوں کی بنا پر اگر ان کے کاموں اور کارناموں میں ہمیں کوئی اختلاف نظر آئے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے اختلاف کو اپنے لیے صبر و سکون کے ساتھ سامان رحمت بنا لیں اور عجلت و کوتاہ فہمی کے ذریعہ باعث گمراہی نہ بننے دیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد ۳۰ ھ تک یعنی ۲۰ سال برابر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو دنیا میں فتوحات حاصل ہوتی رہیں اور ہر سال بلکہ ہر مہینہ کوئی نہ کوئی ملک یا صوبہ مفتوح ہو کر اسلامی سلطنت میں شامل ہوتا رہا، اس بیس سالہ فتوحات نے براعظم ایشیا وافریقہ کے قریباً تمام متمدن ممالک کو اسلامی حکومت کے دائرہ میں داخل کر دیا تھا اور اسلامی سیادت تمام دنیا میں مسلم ہو چکی تھی۔ ۳۰ ھ سے ۴۰ ھ تک فتوحات کا سلسلہ قریباً رکا رہا اور اس دس سال کی مدت میں مسلمانوں کے اندر آپس کے جھگڑے اور اندرونی نزاعات برپا رہے، چشم ظاہر بین اس دس سالہ مدت کو سراسر زیان و نقصان ہی محسوس کرتی ہے، لیکن فہم و فراست اور غور و تامل کے لیے اس میں میں بہت سی بھلائیاں اور خوبیاں پوشیدہ ہیں

وہ بیس سالہ فتوحات جس طاقت کے ذریعہ حاصل ہوئیں وہ طاقت نتیجہ تھی اس روحانیت اور اس تعلیم کا جو اسلام اور قرآن مجید کے ذریعہ صحابہ کرام کو حاصل ہوئی تھیں اور یہ اندرونی فتنے جس چیز نے پیدا کئے تھے وہ نتیجہ تھا، اس طاقت کا جو مادیت اور اس دنیا کے باشندے ہونے کی وجہ سے ہر انسان میں پیدا ہو سکتی ہے، ان دس سالہ رکاوٹوں اور اندرونی جھگڑوں نے عالم اسلام کے لیے اسی طرح قوت اور سامان نمونہ بہم پہنچایا، جس طرح موسم خزاں میں درخت اپنے نشونما کے مادے جمع کر لیتا ہے اور موسم بہار کے آنے پر پھل، پھول اور پتے پیدا کرتا ہے، اگر ان ابتدائی ایام میں مسلمان آپس کی لڑائیوں اور تباہیوں کے نظارے نہ دیکھ لیتے اور ان کی تاریخ کے ابتدائی صفحات میں وہ دس سالہ درد انگیز صفحہ موجود نہ ہوتا تو آگے چل کر قرون اولیٰ کے بعد جب کبھی وہ ایسی زبردست ٹھوکر کھاتے تو ایسے حواس باختہ ہوتے اور اس طرح گرتے کہ پھر کبھی سنبھل ہی نہ سکتے۔

ٹھوکریں کھانا، آپس میں اختلاف کا پیدا ہونا، بھائی کا بھائی سے لڑنا، خانہ جنگی کے شعلوں کا گھروں کے اندر بلند ہونا، ہابیل و قابیل کے زمانہ کی انسانی سنت ہے اور بنی نوع انسان جب تک اس ربع مسکون میں آباد ہے، یہ چیزبھی اس دنیا میں برابر موجود رہے گی۔ حق و باطل کی جنگ جس طرح دنیا میں جاری رہی ہے، اسی طرح روحانیت کے کم زور اور مادیت کے نمایاں ہو جانے پر حامیان حق کے اندر تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد کھٹ پٹ ہوتی رہی ہے، سیدنا موسیٰ علیہ السلام بھی جب سیدنا ہارون علیہ السلام کی داڑھی اور سر کے بال کھینچ سکتے ہیں، یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائی کنویں میں گرا سکتے اور چند درہموں کے عوض فروخت کر سکتے اور حواریان مسیح علیہ السلام میں سے بعض بروایت اناجیل مروجہ خود سیدنا مسیح علیہ السلام کے خلاف گواہی دے سکتے ہیں تو ارباب حق کی اندرونی مخالفتوں اور صحابہ کرام کے مشاجرات پر حیران ہونے اور تعجب کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے، آپس کی مخالفتوں اور لڑائی جھگڑوں سے نوع انسان کبھی کلی محفوظ نہیںہوسکتی

پس یہ فطری تقاضا اگر صحابہ کرام کے زمانہ میں ظہور پزیر نہ ہوتا تو بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے اندرونی نزاعات کی مصیبت سے گزر کر پھر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے، گر کر پھر سنبھلنے،  رک کر پھر چلنے کا موقع نہیں رہتا اور اسلام آج اپنی اصلی حالت میں تلاش کرنے سے بھی کسی کو نہ مل سکتا، دوسرے الفاظ میں اس مضمون کو یوں بھی ادا کیا جا سکتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ کی مخالفتیں اسلامی حکومت کی آئندہ زندگی کے لیے اس ٹیکہ کی مثال تھیں، جو چیچک سے محفوظ رہنے کے لیے بچوں کے لگایا جاتا ہے، یا طاعون سے بچنے کے لیے لوگوں کے جسم میں ٹیکہ کے ذریعہ طاعونی مادہ داخل کیا جاتا ہے، چنانچہ یہ ٹیکہ بھی بہت مفید ثابت ہوا اور اس کی ناگوار یاد آج تک مسلمانوں کے لیے درس عبرت بن کر ہر تباہی و بربادی کے بعد ان کو پھر مستعد اور چوکس بناتی رہتی ہے

بنو امیہ اور بنو عباس کی مخالفت، بنو عباس کے عہد خلافت میں سادات کا خروج، سلجوقیوں اور دیلمیوں کی رقابت، غزنویوں اور غوریوں کی لڑائیاں، فاطمیین و موحدین کی کشمکش، عثمانیوں اور صفویوں کی زور آزمائیاں، افغانوں اور مغلوں کی معرکہ آرائی، غرض ہزارہا خانہ جنگیاں ہیں، جن میں سے ہر ایک مسلمانوں کی تباہی وبرباد کا کافی سامان رکھتی تھی اور ہر موقع پر غیروں کی طرف سے یہی حکم لگایا جاتا کہ اب مسلمان سنبھلنے اور ابھرنے کے قابل نہیں رہے، لیکن دنیا نے ہمیشہ دیکھا کہ وہ سنبھلے اور ابھرے، انہوں نے مایوسی کو کافروں کا حصہ سمجھا اور اپنے آپ کو ہمیشہ امیدوں سے پر استقامت و استقلال سے لبریز رکھا، اسلام کی عزت پر اور اسلام کی بقا کو اپنی بقا پر ترجیح دی

ہلاکو نے بغداد کو برباد کیا تو مسلمانوں نے فوراً ہلاکو کی اولاد کو اسلام کے قلوب سے آباد کر دیا،  عالمِ عیسائیت نے متحد و متفق ہو کر بیت المقدس مسلمانوں سے چھین لیا، مگر صلاح الدین ایوبی نے تمام یورپی طاقتوں کو نیچا دکھا کر اس مقدس شہر کو واپس لے لیا، انگورہ کے میدان نے بایزید یلدرم کی تمام اولوالعزمیوں کو عملی جامہ پہنا دیا۔

غرض خلافت راشدہ کے آخری دس سال میں جو کچھ ظہور میں آیا، اس نے مسلمانوں کو آئندہ کے لیے زیادہ باہمت، زیادہ صعوبت کش، زیادہ سخت جان، زیادہ مستقل مزاج، زیادہ اولوالعزم بنایا، بہر حال سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ کی لڑائیوں کو اگر اسلام اور عالم اسلام کے لیے نقصان رساں کہتے ہو تو کم از کم ان کے فوائد کو بھی گودہ نقصان کے مقابلہ میں کم ہی کیوں نہ ہوں، بالکل فراموش نہ کر دو۔

دن کے ساتھ رات، روشنی کے دامن میں تاریکی، بہار کی آغوش میں خزاں، گل کے پہلو میں خار، شیر کی خوبصورت اور دل ربا شکل و وضع میں درندگی، سانپ کی دل کش صورت و رفتار میں سم قاتل اور دریا کی جواہرات بھری تہہ میں غرقابی و ہلاکت موجود پائی جاتی ہے۔ ایمان کی نعمت کا ہم کو مطلق احساس نہ ہوتا، اگر کفر کی لعنت دنیا میں موجود نہ ہوتی، چاندنی رات ہم کو ہرگز مسرور نہ کر سکتی اگر شب دیجور سے ہم کو واسطہ نہ پڑا کرتا۔

غرض کہ خدائے تعالیٰ نے ہر خوبی کے دامن سے ایک برائی کو باندھ دیا ہے اور ہر نوش میں ایک نیش رکھ دیا ہے، اسی اصول پر کارخانہ عالم چل رہا ہے، خلافت اسلامیہ یا حکومت و سلطنت اسلامیہ نوع انسان کے لیے دنیا میں ایک نعمت کہی جا سکتی ہے، جب کہ چاند اور سورج کے چہروں کو بھی گہن کی سیاہی سے مفر نہیں ہے تو اس نعمت کو مکدر کرنے اور زوال و نکال میں مبتلا کرنے کے سامان بھی اگر دنیا میں موجود ہوتے رہے ہوں تو ہم کو حیران و پریشان نہیں ہونا چاہیے۔

سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں منافقوں اور مسلم نما دشمنان اسلام کے سازشی گروہ کا پیدا ہوجانا تاریخ کے مطالعہ کرنے والے کو سخت ناگوار معلوم ہوتا ہے اور وہ اس سازشی گروہ پیدا ہو سکنے کی ذمہ داری اسلام پر عائد کرنے سے درگزر نہیں کرتا، لیکن اگر وہ غور کرے گا تو جس طرح زندگی یا حیات کو وہ تنازع للبقاء، کشمکش، جدوجہد اور کشمکش کا ایک سلسلہ تسلیم کر لے گا، اسلام درحقیقت نام ہے تمام شیطانی طاقتوں کے مقابلہ میں ہمہ اوقات کمر بستہ رہنے کا اور شیطانی طاقتوں کو مغلوب کر کے رحمانی طاقتوں کے بول بالا کرنے کا، شیطانی طاقتوں میں سے سب سے زیادہ سلطنت اسلامی کے خلاف نقصان رساں منافقوں اور سازشی گروہوں کی شرارتیں ہوا کرتی ہیں، آج تک جب کبھی اور جہاں کہیں خلافت اسلامیہ یعنی سلطنت اسلامیہ کو نقصان پہنچا ہے تو وہ ان ہی منافقوں اور سازش کنندوں کی بدولت پہنچا ہے، ان منافقوں کا سلسلہ آج تک دنیا میں موجود ہے اور آج کل تو پہلے سے زیادہ طاقتور معلوم ہوتا ہے، اس کی پیدائش سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ہوئی، بلکہ یوں کہیے کہ شہادت فاروقی رضی اللہ عنہ سے اس کی ابتداء ہوئی اور اس کے بعد جلد جلد نشوونما ہو کر شہادت عثمانی رضی اللہ عنہ سے شہادت علوی رضی اللہ عنہ تک اس کو نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں، پھر آج تک اس کا سلسلہ موجود پایا جاتا ہے

سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی اسلام کے اقبال میں کمی آ گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ”جب تک یہ شخص (سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ فرما کر) تم میں موجود ہے، فتنوں کا دروازہ بند رہے گا

-(صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلوٰۃ/ صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان ان الاسلام بدأ غریبا)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ

آسمان کا ہر فرشتہ عمر رضی اللہ عنہ کا وقار کرتا اور زمین کا ہر شیطان ان سے ڈرتا ہے

ایک روز کعب احبار رضی اللہ عنہ سے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تم نے کہیں میرا ذکر بھی صحائف بنی اسرائیل میں دیکھا ہے؟

انہوں نے کہا کہ ہاں آپ کی نسبت لکھا ہے کہ

آپ امیر شدید ہوں گے اور راہ خدا میں کسی ملامت کرنے والے سے نہ ڈریں گے، آپ کے بعد جو خلیفہ ہو گا اس کو ظالم لوگ قتل کر ڈالیں گے اور ان کے بعد بلا اور فتنہ پھیل جائے گا

(

Similar Posts