خطیبۃ النساء حضرت اسماء بنتِ یزید رضی اللہ عنہا
حضرت اسماء بنتِ یزید رضی اللہ عنہا صحابیات میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ آپ نہ صرف ایک راویۂ حدیث تھیں، بلکہ جرأت، فصاحت اور دفاعِ حق میں بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ تاریخ میں آپ کو “خطیبۃ النساء” (عورتوں کی خطیبہ) کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، جو آپ کے دلائل کی مضبوطی اور بیان کی شجاعت کی غماز ہے۔
ایک مشہور واقعہ میں آپ نے نبی کریم ﷺ کے سامنے عورتوں کے حقوق کے حوالے سے سوالات اٹھائے، جس پر اللہ نے قرآن میں بھی آیات نازل فرمائیں۔ آپ کی شخصیت عورت کی اسلامی شناخت کی روشن مثال ہے—جو حیا اور وقار کے ساتھ ساتھ علم و استدلال کی بھی حامل تھی۔ آج بھی آپ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ حق گوئی اور احتساب کا جذبہ ایمان کا حصہ ہے۔
:نام و نسب
حضرت اسماء بنت یزید انصاریہ رضی اللہ عنہا کا تعلق مدینہ منورہ کے معروف انصاری قبیلے بنو اوس کے خاندان بنو عبدالاشہل سے تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب یوں ہے: اسماء بنت یزید بن سکن بن رافع بن امرئ القیس بن عبدالاشہل بن جشم بن الحارث بن الخزرج بن عمرو بن مالک بن الاوس۔ آپ کے والد ماجد یزید بن سکن رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی تھے جنہوں نے غزوہ بدر سمیت متعدد معرکوں میں شرکت کی۔ آپ کا خاندان نہ صرف جرأت و شجاعت میں ممتاز تھا بلکہ علم و فہم میں بھی ممتاز مقیم رکھتا تھا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو “خطیبۃ النساء” کا لقب دیا گیا جو آپ کے فصیح بیان اور حقوق نسواں کے دفاع کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ آپ کا خاندانی پس منظر اسلام کی تاریخ میں انصار کے جذبہ ایمان، شرافت و نجابت اور علمی بصیرت کا شاندار نمونہ پیش کرتا ہے۔
:قبولِ اسلام
حضرت اسماء بنت یزید انصاریہ رضی اللہ عنہا کا اسلام لانا انصارِ مدینہ کے اس عظیم جذبے کا حصہ تھا جس نے پورے مدینہ منورہ کو اسلام کے نور سے منور کر دیا۔ جب نبی اکرم ﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی تو بنو اوس اور بنو خزرج کے گھر گھر اسلام کی دعوت پہنچنے لگی۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنے خاندان کے ساتھ اسلام قبول کیا، جو ان کے گھرانے کی روحانی بصیرت اور حق کی تلاش کی داستان ہے۔ ان کا اسلام لانا محض زبانی اقرار تک محدود نہیں تھا، بلکہ انہوں نے اپنی پوری زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھال لیا اور دین کی سربلندی کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔
قبولِ اسلام کے بعد کے حالات
اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ کی صحبت میں رہ کر علم حاصل کیا۔ آپ نے نہ صرف احادیث روایت کیں، بلکہ دین کے معاملات میں عورتوں کی رہنمائی کا فریضہ بھی سرانجام دیا۔ ایک مشہور واقعہ میں آپ نے نبی اکرم ﷺ سے عورتوں کے حقوق کے بارے میں سوالات کیے، جن کے جوابات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی آیات نازل فرمائیں۔ یہ واقعہ آپ کے گہرے ایمان اور دین کی سمجھ بوجھ کی واضح دلیل ہے۔
حضرت اسماء بنت یزید انصاریہ رضی اللہ عنہا کا نبی اکرم ﷺ سے عورتوں کے حقوق کے بارے میں سوال کرنا ایک تاریخی اور تربیتی واقعہ ہے جو اسلام میں خواتین کے مقام و مرتبہ کو واضح کرتا ہے۔ یہ واقعہ درج ذیل ہے:
:واقعہ کا خلاصہ
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا ایک دن نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا
“یا رسول اللہ! میں عورتوں کی طرف سے آپ کے پاس سفیر بن کر آئی ہوں۔ آپ ﷺ پر ایمان لانے والی ہر عورت، خواہ وہ جوان ہو یا بوڑھی، میری بات سے اتفاق کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مردوں اور عورتوں دونوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ ہم عورتیں آپ پر ایمان لائی ہیں، آپ کی پیروی کرتی ہیں، گھروں میں محصور رہتی ہیں، مردوں کی خواہشات پوری کرتی ہیں، اور ان کے بچوں کی پرورش کرتی ہیں۔ پھر کیا ہمارے لیے بھی وہی اجر ہے جو مردوں کے لیے ہے؟”
نبی اکرم ﷺ نے ان کے سوال کو بڑی توجہ سے سنا اور فرمایا
اے عورت! جا کر دوسری عورتوں کو بتا دو کہ جو کوئی اپنے شوہر کی خوشنودی حاصل کرے، اس کی فرمانبرداری کرے، اور اس کے حقوق ادا کرے، وہ مردوں کے برابر اجر پائے گی۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا یہ سن کر اتنی خوش ہوئیں کہ وہ “اللہ اکبر” کہتی ہوئی واپس لوٹیں ۔
:قرآن میں نازل ہونے والی آیات
اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب کی آیات 35-33 نازل فرمائیں، جس میں مومن مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے یکساں اجر کا ذکر کیا گیا
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، سچے مرد اور سچی عورتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ رکھ والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں، اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور عورتیں، اللہ نے ان سب کے لیے بخشش اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔
:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک نہایت دلکش اور روح پرور منظر پیش کرتا ہے۔ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا میکہ سے کاشانہ نبوت میں تشریف لائیں، تو انہیں سنوارنے اور سجانے کی ذمہ داری ان خوش نصیب خواتین نے اٹھائی جن میں حضرت اسماء بنت یزید انصاریہ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں۔ یہ خواتین نہ صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تیاری میں مصروف تھیں، بلکہ انہوں نے ایک نئی دلہن کو اس انداز سے سجایا کہ وہ دیدہ زیب اور پر وقار نظر آئیں۔
جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو زیب و زینت سے آراستہ کر لیا گیا، تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اور دیگر خواتین نے حضور نبی اکرم ﷺ کو اطلاع دی۔ آپ ﷺ تشریف لائے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بیٹھ گئے۔ اس موقع پر کسی نے آپ ﷺ کی خدمت میں دودھ پیش کیا، جسے پی کر آپ ﷺ نے اس خوشگوار موقع کو مزید برکت بخشی۔ یہ منظر نہ صرف ازواج مطہرات کے درمیان محبت اور اخوت کا پتہ دیتا ہے، بلکہ اس میں اسلامی شادی کے آداب اور سادگی کا بھی عکس نظر آتا ہے۔
یہ واقعہ ہمیں متعدد اہم سبق دیتا ہے۔ اولاً، یہ اسلامی معاشرے میں خواتین کے باہمی تعاون اور رشتوں کی مضبوطی کی عکاسی کرتا ہے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا جیسی جلیل القدر صحابیہ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تیاری میں حصہ لینا، خواتین کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کی بہترین مثال ہے۔ ثانیاً، یہ واقعہ اسلامی شادی کی سادگی اور برکتوں کو واضح کرتا ہے، جہاں دکھاوے اور اسراف کی بجائے سادگی اور مبارکباد کو ترجیح دی گئی۔ آخر میں، حضور ﷺ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ برتاؤ، ازدواجی زندگی کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے، جس میں محبت، عزت اور تواضع کے پہلو نمایاں ہیں۔
اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں خواتین کا کردار نہایت اہم اور قابل احترام ہے، اور ازدواجی زندگی میں سادگی اور مودت ہی کامیابی کی کنجی ہیں۔
:ںزول وحی کا واقعہ
حضرت اسماء بنت یزید انصاریہ رضی اللہ عنہا ایک تاریخی واقعہ بیان کرتی ہیں جو ان کی زندگی کا ایک نہایت یادگار لمحہ تھا۔ وہ اس وقت حضور نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ سفر کر رہی تھیں اور آپ ﷺ کی اونٹنی “غضباء” کی نکیل تھامے ہوئے تھیں۔ اچانک ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوئی جب آپ ﷺ پر وحی کا نزول شروع ہوا۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سخت حیرت زدہ ہوئیں۔
نزول وحی کے دوران اونٹنی کے دونوں اگلے پاؤں زمین میں دھنس گئے اور اس کا کوہان نمایاں طور پر جھک گیا۔ حضور ﷺ کی حالت دیکھنے والی تھی – آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا، پیشانی سے موتیوں کی طرح پسینہ ٹپکنے لگا، اور سانسوں میں غیر معمولی تیزی آ گئی۔ وحی کے بوجھ کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے غیر ارادی طور پر حضرت اسماء کا ہاتھ اس زور سے پکڑ لیا کہ انہیں تکلیف کا احساس ہوا۔
یہ واقعہ وحی الٰہی کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ایک زندہ ثبوت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے نہ صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مجید کا نزول ایک محسوس اور واقعی عمل تھا، بلکہ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کس قدر تکلیف کے عالم میں وحی کو قبول فرماتے تھے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا یہ بیان تاریخی اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہے جو وحی کے نزول کی کیفیت کو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
اس واقعے سے ہمیں کئی اہم تعلیمات ملتی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ وحی محض ایک ذہنی تخیل نہیں بلکہ ایک حقیقی اور محسوس شدہ تجربہ تھا۔ دوسری اہم بات یہ کہ قرآن مجید کا نزول نبی کریم ﷺ کے لیے ایک سخت آزمائش کا باعث بنتا تھا۔ تیسری اہم نکتہ یہ کہ خواتین کو بھی دینی معاملات میں خصوصی مقام حاصل تھا اور وہ ایسے مقدس لمحات کی براہ راست گواہ بن سکتی تھیں۔ یہ واقعہ ہمارے ایمان کو مضبوط بنانے اور وحی کی حقیقت کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
:وفات
حضرت اسماء بنت یزید انصاریہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بارے میں تاریخی مصادر میں تفصیلات کم ملتی ہیں، لیکن یہ بات مسلم ہے کہ آپ نے نبی کریم ﷺ کے بعد طویل عمر پائی اور اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ کی وفات کا سن مختلف روایات میں 60 ہجری سے 70 ہجری کے درمیان بیان کیا جاتا ہے۔ آپ کی وفات مدینہ منورہ میں ہوئی، جہاں آپ نے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری تھی۔
ام ورقہ انصاریہ رضی اللہ تعالی عنہا
حضرت عاتکہ بنت زید رضی اللہ تعالی عنہا
حضرت ربیع بنت نضر رضی اللہ تعالی عنہا
اسماء بنت عمرو الانصاریہ رضی اللہ عنہا
ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا
عفراء بنت عبید انصاریہ رضی اللہ تعالی عنہا