حضرت ام سلیم بنت ملحان رضی اللہ عنہا (حضورﷺ کی رضائی خالہ)

حضرت ام سلیم بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔

قال النبي صلى عليه وسلم: دخلت الجنة فسمعت خشفة صوت مشی فقلت من هذا؟قالوا هذه الغميصاء ملحان ام انس بن مالك

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا تو کسی کے چلنے کی آہٹ سنی۔ میں نے دریافت کیا یہ کون ہے؟کہا یہ غمیصاء ہیں ملحان کی بیٹی اور انس بن مالک کی والدہ ہیں۔

حضرت ام سلیم بنت ملحان رضی اللہ تعالی عنہا

نام و نسب

یہ صحابیہ جن کی معطر سیرت کا ہم مطالعہ کررہے ہیں ان پاکیزہ خواتین میں سے ہیں جن کی شہرت عالم اطراف میں پھیل گئی۔ اور اپنے عظیم و عمدہ اعمال کے ساتھ سخاوت اور نیکیوں کے آسمان میں بلند ہوگئیں۔

راویوں نے آپ کی کنیت جو مشہور ہوئی جس پر اتفاق ہوا ہے وہ ام سلیم ہے لیکن ان کے لقب میں اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ غمیصاء ہے یا رمیصاء ہے۔ اسی طرح ان کے نام میں بھی اختلاف کیا ہے کہا گیا ہے کہ حضرت امِ سلیم کا اصل نام سہلہ ہے یا انیفہ یا رمیلہ یا رمیشہ ہے

(سیراعلام النبلاء ج نمبر 2 ص نمبر 304، طبقات ج نمبر 8 ص نمبر 424، صفۃالصفوۃ ج نمبر 2 ص نمبر65، الاسماء اللغات ج نمبر 12 ص نمبر 471)

حضرت ام سلیم حضرت انس بن مالک جو خادمِ رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہیں ان کی والدہ ہیں۔ اس میں کسی اہل علم کا اختلاف نہیں حضرت انس سے صحیح مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے تشریف لائے تو میں دس سال کا لڑکا تھا اور میری والدہ ام سلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا یہ انس ہے آپ کی خدمت کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا اور کنیت رکھی ابو حمزہ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انس سے مذاق فرماتے اور فرماتے “اے دو کانوں والے”
حضرت انس کے لئے آپ علیہ السلام نے کثرت مال اور اولاد اور رزق میں برکت کی دعا فرمائی۔

(اصابہ ج نمبر 1 ص نمبر 84، مسند احمد ج نمبر3 ص نمبر 127)

ام سلیم اور آپ کی بہن ام حرام رضی اللہ عنہما دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ تھیں۔ اور یہ بڑا عمدہ رتبہ ہے دونوں صحابیات کے لئے۔

حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا مہر

حضرت ام سلیم اس وقت ایمان لائیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکہ میں تھے پھر جب مدینہ تشریف لائے تو بیعت فرما لی اور آپ کا اسلام لانا اپنے شوہر مالک بن نصر حضرت انس کے والد کو غصہ دلانا اور چھوڑنا تھا جو اس وقت غائب تھے۔ پھر ام سلیم سے کہا کیا تو مجھے چھوڑنا پسند کرتی ہے فرمایا نہیں۔لیکن میں اسلام لاچکی ہوں۔
حضرت انس کو جب کہ وہ بچے تھے تلقین کرتیں کہ کہہ لاالہ الااللہ کہہ اشھدان محمد رسول اللہ تو حضرت انس یہ بولتے لہذا یہ عمدہ طریقہ تھا ام سلیم کا جس سے وہ مالک کو غصہ دلاتیں اور وہ ان سے کہتے کہ میرے سامنے بچہ کو خراب نہ کرو تو وہ کہتیں میں اس کو خراب نہیں کررہی جب مالک ان سے مایوس ہوگئے تو ان کو چھوڑ کر شام کی طرف نکلے اپنے ایک دشمن سے ملے جس نے ان کو قتل کردیا جب ام سلیم کو ان کے قتل کی خبر ملی تو کہا کوئی جرم و افسوس نہیں میں انس کو دودھ نہ چھڑاؤں گی یہاں تک کہ وہ خود دودھ کو چھوڑ دیں اور نہ ہی شادی کروں گی جب تک انس مجھے حکم نہ کریں۔
پھر جب حضرت انس جوان ہوگئے تو ابو طلحہ انصاری (ابو طلحہ انصاری یہ زید بن سہل بن اسود بخاری مدنی ہیں۔ غزوہ عقبہ بدر، احد، خند اور اکثر معرکوں میں نبی علیہ السلام کے ساتھ رہے۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیانوے احادیث روایت کی ہیں سن 33 ہجری میں وفات پائی۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد کثرت صوم شروع کر دیا۔ آپ کے فضائل کثیر ہیں۔ ان کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ابو طلحہ کی آواز لشکر میں سو آدمیوں سے بہتر ہے۔
تہذیب الاسماء واللغات ج نمبر 2 ص نمبر 245۔246) ام سلیم کو پیغام نکاح دینے کے لئے پہنچے لیکن تھے مشرک اس وجہ سے ام سلیم نے انکار کر دیا پھر جب دوبارہ ان کے پاس آئے تو ام سلیم نے ان کے چہرے میں خیر کی علامت جانی اور یوں فرمایا۔
مناسب نہیں ہے کہ میں کسی مشرک سے شادی کروں بہرحال اے ابو طلحہ انصاری کیا آپ نہیں جانتے کہ تمہارے معبودوں کو فلاں شخص بڑا بھلا کہتا ہے اور بالفرض اگر تم ان معبودوں میں آگ بھڑکاؤ تو وہ جل جائیں پھر(سوچو)کہ یہ تمہیں کیا نفع دے سکتے ہیں اسی طرح ام سلیم نے اس جیسی باتیں کیں تو ابو طلحہ واپس ہوئے اس طرح کہ ان کے دل میں یہ باتیں کھٹک رہی تھیں پھر دوبارہ آئے اس حال میں کہ اسلام کی روشنی ان کی آنکھوں کے سامنے جگمگا رہی تھی اور یوں فرمائے لگے جو آپ نے کہا وہ میرے دل میں سما چکا ہے پھر اپنے اسلام لانے کا اعلان فرمایا حضرت ام سلیم پاس ہی تھیں کہنے لگیں میں آپ سے شادی کروں گی اور اسلام کے سوا اور کوئی مہر نہیں لوں گی۔

(طبقات ج نمبر 8، ص نمبر 426، اسد الغابہ ج نمبر 5 ص نمبر 591)

مذکورہ بالا قصہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا ہے۔ اس بارے میں ثابت بنانی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں ہم نے ام سلیم کے مہر(اسلام) سے زیادہ باعزت اور اچھا مہر نہیں سنا۔

:حضرت ام سلیم کی اولاد

حضرت ام سلیم نے حسن، صبر، قوت ایمان، کامل یقین، توکل علی اللہ میں بڑا اونچا مرتبہ پایا اسی بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی والدہ محترمہ کے متعلق بتاتے ہیں کہ میرے ایک بھائی تھے جو ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے (ماں شریک بھائی) ہوئے جن کی کنیت ابو عمیر تھی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آتے تو تو ان کو مزاقاً فرماتے اے ابو عمیر بلبل نے کیا کہا؟
ایک مرتبہ ابو عمیر بیمار ہوئے ان کے والد ابو طلحہ کہیں غائب تھے تو بچہ مرض سے وفات پا گیا تو ام سلیم نے ان کے کفن وغیرہ کی تیاری کی اور کہا کہ اس معاملہ کی خبر ابو طلحہ کو نہ پہنچاؤ پھر رات کو ابو طلحہ آئے تو ان کے لئے خود کو سنوارہ اور سنگھار کیا پھر ابو طلحہ نے پوچھا کہ ابو عمیر کا کیا ہوا تو فرمانے لگیں کہ اپنی جگہ پر آرام سے ہے پھر شوہر کے لئے کھانا پیش کیا پھر دونوں نے اس طرح بخوشی رات گزاری جس طرح میاں بیوی گزارتے ہیں۔
پھر ام سلیم شوہر کو کہنے لگیں اے ابو طلحہ تم فلاں کی اولاد کو جانتے ہو انہوں نے کسی سے عاریتاً چیز مانگی اور اس سے نفع اٹھایا پھر جب ان سے وہ چیز واپس طلب کی گئی تو ان پر دشوار ہوا تو ابو طلحہ نے فرمایا انہوں نے انصاف نہیں کیا تو پھر ام سلیم فرمانے لگیں تیرا فلاں بیٹا جو اللہ عزوجل کی طرف سے عاریتہً آیا تھا وہ اللہ نے واپس لے لیا تو ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے اناللہ وانا الیہ راجعون کہا اور اللہ کی بڑائی بیان کی اور فرمایا خدا کی قسم میں تجھ کو صبر پر اپنے سے زیادہ غالب نہ ہونے دوں گا۔
پھر جب صبح کو ابو طلحہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا “اللہ تمہاری گزشتہ رات میں برکت عطا فرمائے اور اسی رات سے ام سلیم عبداللہ بن طلحہ کے ساتھ حاملہ ہوئیں۔
یہ صبر کا عجیب نمونہ دونوں میاں بیوی کے لئے بڑا خیر و برکت کا باعث بنا اور عبداللہ بن ابو طلحہ بھی بڑی بابرکت شخصیت بنے۔
اور اس برکت کے آثار آگے ان کی اولاد میں بھی ظاہر ہوئے۔
عبداللہ کے سات بچے ہوئے اور ساتوں حافظ قرآن تھے۔

نعم الا له على العباد كثيرة
واجلهن نجابة الاولاد

خدا کی نعمتیں اپنے بندوں پر کثیر ہیں
اور سب سے بڑی نعمت شریف اولاد ہے

:حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کی جہادی شجاعت و دلیری

حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا خنجر۔۔۔۔۔

اللہ پاک نے ان کو بڑی قوت قلب عطا فرمائی تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم انکو معرکوں میں مقرر فرماتے اور ان کے ساتھ ہوتے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام حضرت ام سلیم کے ساتھ غزوہ میں شریک تھے اور حضرت ام سلیم کے ساتھ عورتوں کی جماعت تھی یہ سب زخمیوں کی دوا و علاج اور پانی پلا رہی تھیں۔ اس دن بڑی قدر کے لائق جہاد کیا۔
حضرت انس سے مروی ہے کہ جنگ احد میں جب مسلمان شکست کھا کر پیچھے ہٹے تو میں نے ام سلیم اور عائشہ بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیکھا کہ وہ مشکیزے اپنی کمروں پر لادے زخمیوں(مجاہدین)کو پانی پلا رہی تھیں۔

(امام مسلم،ترمذی،ابو داؤد، روزہ الشیخان فی الصحیحین،
تاج الجامع الاصول ج نمبر 4 ص نمبر 344)

جب آپ علیہ السلام غزوہ خیبر کی طرف نکلے تو ام سلیم بھی مجاہدین کا اجر حاصل کرنے ساتھ نکل پڑیں۔
جنگ حنین کے دن آپکا بڑا عمدہ واقعہ پیش آیا جو آپ کی بہادری و فضیلت اور اچھی آزمائش پر دلالت کرتا ہے۔
وارد ہے کہ انہوں نے یومِ حنین کو خنجر خریدا اور اپنی کمر میں باندھ لیا حالانکہ وہ اس دن عبداللہ بن ابو طلحہ کے ساتھ امید سے تھیں تو ابو طلحہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عرض کیا کہ یہ ام سلیم ہیں اپنے ساتھ خنجر لئے ہوئے تو ام سلیم فرمانے لگیں یا رسول اللہ صلی علیہ وسلم اگر کوئی مشرک میرے قریب لگا تو اس خنجر سے اس کا پیٹ پھاڑ دوں گی

(روایت کیا اس کو مسلم نے کتاب الجہاد والیسبر میں)

حضرت ام سلیم اور ان کے شوہر ان افراد میں سے ہیں جن کے متعلق شاعر نے کہا ہے کہ

نصروا نبيهم وشدوا ازره
بحنين يوم تواكل إلا بطال

(ان)لوگوں نے اپنے نبی کی مدد فرمائی اور ان کی کمر کو مظبوط کیا۔
(جنگ)حنین میں جس دن بہادر بھی میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔

:خوشخبری و بشارت

حضرت ام سلیم کے فضائل بڑے کثیر اور مشہور ہیں کوئی خیر کا دروازہ ایسا نہیں جس میں ان کا حصہ نہ ہو۔ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چودہ احادیث روایت کیں چار ان میں صحیحین میں بھی ہیں۔

:آپ کا بلند مرتبہ اور فضائل

صحابہ کرام کی خواتین کے درمیان حضرت ام سلیم نے اونچا مرتبہ حاصل کیا۔
آپ کے فضائل میں یہی کافی ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مہربانی اور لطف و کرم انکے ساتھ خاص طور پر رکھتے اور انکو اپنے اہلِ بیت کا درجہ دیتے بوجہ اس کے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عورتوں کے علاوہ کسی عورت کے گھر داخل نہ ہوتے تھے سوائے ام سلیم کے گھر کے۔ آپ علیہ السلام سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا:
“مجھے ان پر بڑا رحم آتا ہے ان کے بھائی میرے ساتھ قتل ہوئے۔”

(التاج ج نمبر 3 ص نمبر 386، سیرت حلبیہ ج نمبر 3 ص نمبر 73)

حضرت ام سلیم ان باعزت خواتین میں سے ہیں جن کی زیارت کرنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جاتے اور بہت مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلیم کے گھر کھانا بھی تناول فرمایا اور ان کے ہاں چٹائی کے بچھونے پر نماز ادا کی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلیم کے لئے اس قدر دعائیں فرمائیں کہ وہ خود فرماتی ہیں کہ میرے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی زیادہ دعائیں فرمائیں کہ میں اس سے زیادہ کا خیال نہیں کرسکتی۔

(استیعاب ج نمبر23 ص نمبر 439)

ان یکتا خبروں میں سے یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ ظہر کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم کے گھر چمڑے کے بچھونے پر سوئے تو پسینہ بہا تو آپ بیدار ہوگئے دیکھا کہ ام سلیم اس پسینہ کو سینچ رہی ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا کررہی ہو۔
عرض کیا جو خیر و برکت آپ علیہ السلام سے نکل رہی ہے اس کو حاصل کررہی ہوں۔
اور پھر حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا اس پسینہ مبارک کو اپنی خوشبو کے ساتھ ملاوٹ کرلیتی اس طرح یہ سب سے اچھی خوشبو بن جاتی۔
حضرت ام سلیم کے بارے میں منقول ہے کہ حضور علیہ السلام نے ان کو کچھ موئے مبارک(بال) عطا فرمائے تھے۔

(زادالمعارج ج نمبر 2 ص نمبر 269)

:تعریف اور الوداع

ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ام معاذ انصاریہ رضی اللہ عنہا کی تعریف پر بڑا حصہ پایا۔
جب ان کی وفاداری کی صفات بیان کی وہ اس طرح کہ جب عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اس بات پر کہ آئندہ نوحہ(مرنے والے پر رونا) نہ کریں گی تو حضرت ام سلیم نے اس بارے میں بتایا کہ سوائے چند کے کسی نے وعدہ کی وفا نہ کی اس کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
ام سلیم
ام العلاء
ام معاذ
اور حضرت معاذ کی بیوی
رضی اللہ عنہم

(الاصابہ ج نمبر 4 ص نمبر 473۔ دیکھئے تفسیر ابن کثیر آیت نمبر 12 سورۃ الممتحنہ)

جس طرح حضرت ام سلیم نے عورتوں میں اچھی صفات پیدا کیں اسی طرح اہل علم مردوں میں بھی خوب مرتبہ پایا۔
ابن البر فرماتے ہیں
“ام سلیم بڑی عقل والی خواتین میں سے تھیں”
اسی طرح امام نووی انکی تعریف فرماتے ہیں
“حضرت ام سلیم بڑی فاضلہ صحابیات میں سے تھیں”
رضی اللہ عنہا وارضاھا۔

:وفات

حضرت اُمِّ سُلَیْم رضی اللہ عنہا کی وفات کے بارے میں مختلف روایات ہیں، لیکن یہ بات مسلم ہے کہ وہ نبی ﷺ کے بعد بھی زندہ رہیں اور اپنی زندگی دین کی خدمت میں گزار دی

حضرت اُمِّ سُلَیْم رضی اللہ عنہا کی زندگی ہر مسلمان خاتون کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Similar Posts