حضرت ام ایمن حبشیہ رضی اللہ عنہا. رسول اللہ ﷺ کی دوسری ماں

حضرت ام ایمن حبشیہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی باندی تھیں۔ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش فرمائی۔ ان کا نام برکہ بنت ثعلبہ بن عمرو تھا۔ آپ علیہ السلام کو اپنے والد سے میراث میں ملیں تھیں ان کے ساتھ پانچ اونٹ اور بکریاں بھی تھیں۔ جب آپ علیہ السلام نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح فرمایا تو ان کو آزاد فرما دیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ آپ کو “اُمِّی بَعْدَ اُمِّی” (میری ماں کے بعد میری ماں) کہہ کر پکارتے تھے ۔

:نام و نسب

حضرت اُمِّ ایمن رضی اللہ عنہا کا اصل نام “برکہ بنت ثعلبہ بن عمرو بن حصن بن مالک بن سلمہ بن عمرو بن نعمان” تھا۔ آپ کو “اُمِّ الظباء” کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ آپ حبشہ کی رہنے والی تھیں اور آپ کا رنگ کالا تھا مگر نقش و نگار موٹے اور جاذب نظر تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سےنکاح کے بعد اپ کو ازاد کر دیا۔

اُمّ ِ ایمنؓ کا پہلا نکاح عبید بن زید سے ہوا، جن سے اُن کے ہاں ایمن نامی بیٹا پیدا ہوا۔ جس کی وجہ سے آپ کو “اُمِّ ایمن” کا لقب ملا ۔

:حضرت ام آیمن کا قبول اسلام

صاحب سیرت حلبیہ ابن کثیر سے نقل فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اھل بیت تمام لوگوں سے پہلے ایمان لا چکے تھے جن میں حضرت خدیجہ، حضرت زید، زید کی بیوی ام ایمن اور علی رضی اللہ عنہم ہیں۔ (سیرت حلبیہ ج1 ص 435)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

هَذِهٖ بَقِیْةُ اَهْلِ بَیْتِیْ

یہ میرے گھر والوں میں سے بقیہ(خاتون)ہیں

کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی الله علیه وآله وسلم یَقُوْلُ: اُمِ اَیْمَنِ اُمِّی بَعَدَ اُمِّی.

ام ایمن میری والدہ کے بعد میری والدہ ہیں

حضرت اُمِّ ایمن رضی اللہ عنہا کی زندگی ایمان، استقامت، خدمتِ رسول اور جہاد فی سبیل اللہ کی بے مثال داستان ہے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی رسول اللہ ﷺ اور اسلام کی خدمت میں گزار دی۔یہاں تک کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا (رسول اللہ ﷺ کی بیٹی) کی تجہیز و تکفین کے فرائض بھی انہوں نے انجام دیئے ۔

:نکاح اور اولاد

:حضرت اُمِّ ایمن رضی اللہ عنہا کی زندگی میں دو نکاح ہوئے

:پہلا نکاح
رسول اللہ ﷺ نے آپ کو آزاد کرنے کے بعد عبید بن زید حارثی سے آپ کا نکاح کرایا جن سے آپ کے بیٹے سیدنا ایمن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ سیدنا ایمن صحابی رسول تھے جو غزوہ حنین میں شہید ہوئے ۔

:دوسرا نکاح
رسول اللہ ﷺ نے آپ کو دو بار جنت کی بشارت دی، طبقات ابن سعد میں درج ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

مَنْ سُرُّهٗ اَنْ یَّتَزَوّجَ امْرَاَةً مِنْ اَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْیَتَزَوَّج ام ایمن

جو کوئی جنتی خاتون سے نکاح کرنا چاہے تو وہ ام ایمن سے شادی کرلے۔ (طبقات ابن سعد، ص: 306) اس پر آپ ﷺ کے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے نکاح کیا جن سے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے ۔

اسلام سے محبت

حضرت اُمِّ ایمن رضی اللہ عنہا اسلام لانے والی ابتدائی خواتین میں سے تھیں۔ علامہ ابن اثیرؒ نے “اسد الغابہ” میں لکھا ہے: “اَسْلَمْت قدیما اول الاسلام” (آپ اوائل اسلام میں ایمان لے آئی تھیں) ۔ آپ نے دو بار ہجرت کی – پہلی ہجرت مکہ سے حبشہ کی طرف اور دوسری ہجرت مکہ سے مدینہ کی طرف ۔

آسمان سے پانی کا ڈول اترنے کا واقعہ

جب حضرت اُمِّ ایمن رضی اللہ عنہا نے مدینہ ہجرت کی تو سخت گرمی میں روزے کی حالت میں مکہ سے مدینہ تک پیدل سفر کیا۔ راستے میں اتنی شدید پیاس لگی کہ موت کا خوف ہوا۔ آپ فرماتی ہیں: “جب سورج غروب ہوا تو میں نے دیکھا سفید رسی سے بندھا ہوا پانی کا ایک ڈول آسمان سے لٹک رہا تھا۔ جب قریب ہوا تو میں نے اسے پکڑ کر سیر ہو کر پیا۔ اس کے بعد میں سخت گرمی کے دن دھوپ میں پھرتی تھی تاکہ پیاس لگے لیکن پھر بھی پیاس نہ لگتی تھی” ۔

سواری طلب کرنے پر حضور ﷺ کا مزاح

طبقات ابن سعد میں روایت ہے کہ ایک دن حضرت اُمِّ ایمن رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر کہا: “مجھے سواری دے دیجئے”۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “میں آپ کو اونٹنی کے بچے پر سوار کروں گا”۔ وہ بولیں: “یا رسول اللہ! وہ اونٹ کا بچہ میرا بوجھ نہ اٹھا سکے گا”۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “میں تو آپ کو اونٹنی کے بچے پر ہی سوار کروں گا”۔ درحقیقت آپ ﷺ ان سے دل لگی کر رہے تھے کیونکہ اونٹ اونٹنیوں کے بچے ہی ہوتے ہیں ۔

مجاہدہ کاملہ

حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کو میدان جہاد میں یدِ طولٰی حاصل تھا آپ غزوہ احد میں حاضر ہوئیں اور مجاہدین کو پانی پلانے پر مقرر کی گئیں اور ساتھ ساتھ زخمیوں کی دواوعلاج میں بھی مصروف تھیں اور جب مسلمان یوم احد میں شکست کھا کر پیچھے ہٹے تو ان کے چہروں پر مٹی پھینکنے لگیں اور کہہ رہی تھیں یوں تم اپنی عورتوں سے باتیں کرو گے اٹھاؤ اپنی تلوار اور چلو۔

(الاستیعاب ج نمبر 4 ص نمبر 244، سیرت حلبیہ ج نمبر 1 ص نمبر 435)

غزوہ احد کے موقع پر آپ نے خواتین کے ایک گروہ کے ساتھ زخمیوں کو طبی امداد مہیا کی اور بھاگنے والے سپاہیوں کو جھڑک کر میدان جنگ میں واپس بھیجا، حتیٰ کہ ان پر خاک پھینکی اور کہا: “اپنی تلوار مجھے دے دو” ۔

اسی طرح ام ایمن غزوہ خیبر میں بھی شریک ہوئیں ساتھ عورتوں کی ایک جماعت بھی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کافی مال غنیمت عطا فرمایا۔

جنگِ حنین میں مجاہدین کے قافلے کے ساتھ اپنے دونوں بیٹوں کو لئے ہوئے شامل ہوئیں(ایمن،اسامہ)یہ دونوں عظیم سپوت ان سو جوانوں میں سے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گردوپیش ثابت قدم رہے اور حضرت ایمن اسی جانثاری میں شہید ہوکر گر پڑے اور ایمان و اسلام کے مزید رتبوں پر فائز ہوگئے۔ ام ایمن کے لال ان دس میں سے تھے جو اسی جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔

اس جنگ میں جو صحابہ کرام ثابت قدم رہے وہ یہ ہیں

حضرت ابو بکرصدیق
حضرت عمر
حضرت علی
حضرت عباس
ابوسفیان
جعفر بن ابو سفیان
اسامہ بن زید، انکے بھائی ایمن
ربیعہ بن حارث
فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہم

(تفسیر قرطبی ج نمبر 8، ص نمبر 97 ،98، فتح الباری ج نمبر 8 ص نمبر 427)

وفات

حضرت اُمِّ ایمن رضی اللہ عنہا کا انتقال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا۔ بعض علماء کے مطابق آپ کی عمر تقریباً 100 سال تھی جب آپ کی وفات ہوئی۔
ام ایمن کی وفات کے بارے میں علامہ ذہبی اور ابن حجر رحمۃاللہ علیہ فرما تے ہیں کہ حضرت ام ایمن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پانچ ماہ بعد رحلت فرما گئ تھیں اور جنّت البقیع میں تدفین ہوئی۔

حضرت سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کے فضائل۔

صحیح مسلم کی روایت ہے

عن انس رضی الله عنه قال: قال ابوبکر بَعَدَ وَفَاةِ رَسُول اللّٰہِ صلی الله علیه وآله وسلم لِعُمَرَ، انْطَقْ بِنَا اِلٰی اُمّ اَیْمَنِ نَزُوْرَهَا. کَمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم یَزُورها. فلمَّا اِنْتَهَیْنَا اِلَیْهَا بَکَتْ فقال لها: مَایُبْکِیْکَ؟ مَا عِنْدَاللّٰہِ خَیْرٌ لِرَسُول اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَتْ: ما اَبقکِی ان لّا اکون اعلم انّ ماعنداللّٰه خیر لرسول اللّٰه صلی الله علیه وآله وسلم. ولکن ابکی ان الوحی قد انقطع مِنَ السَّمَآء. فهیجتهما علی البُکاءِ فَجَعَلاَ یَبْکِیَانِ مَعَهَا

(صحیح مسلم، دارالحدیث القاہره، 1991ء، رقم: 2453)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: چلو حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کی زیارت کرے۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ جب ہم حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں۔ ان دونوں نے کہا: آپ کیوں رو رہی ہیں؟ اللہ کے پاس جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اجر ہے وہ زیادہ اچھا ہے۔ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اس لئے نہیں رو رہی کہ میں نہیں جانتی کہ اللہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اچھا اجر ہے لیکن میں تو اس لئے رو رہی ہوں کہ آسمان سے وحی کا آنا بند ہوگیا۔ پھر ان دونوں پر بھی گریہ طاری ہوا اور وہ (دونوں) بھی رونے لگے ۔

آپ نے بے شمار احادیث بیان کی ہیں خصوصاً رسول اللہ ﷺ کے بچپن اور ابتدائی حالات زندگی سے متعلق احادیث ۔

Similar Posts