حضرت اُمِ حرام بنتِ ملحان رضی اللہ تعالی عنہا

حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا اسلام کی ایک عظیم خاتون صحابیہ ہیں، جن کا تعلق انصار کے معزز قبیلہ خزرج سے تھا۔ آپ نہ صرف رسول اللہ ﷺ کی قریبی ساتھی تھیں، بلکہ آپ کی فضیلت اور جرأت کی داستانیں تاریخ کے صفحات میں سنہری حروف سے لکھی گئی ہیں۔ ام حرام رضی اللہ عنہا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں اور ان کا گھرانہ ایمان و تقویٰ کی روشن مثال تھا۔ آپ نے نبی کریم ﷺ سے براہ راست احادیث روایت کیں اور اسلام کی تبلیغ و خدمت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ خصوصاً بحری جہاد کے سلسلے میں آپ کی پیشین گوئی اور شوقِ شہادت کی داستان انتہائی قابلِ ذکر ہے، جو آپ کے عزم و استقامت کی غماز ہے۔ یہ مضمون آپ کی زندگی کے اہم پہلوؤں، ایمان افروز واقعات اور اسلامی تاریخ میں آپ کے مقام پر روشنی ڈالے گ

:حضرت اُمِ حرام بنتِ ملحان رضی اللہ تعالی عنہا

:نام و نسب

حضرت اُمِّ حَرام بنتِ مِلْحان رضی اللہ عنہا کا نام “رُمَیْصَاء” یا “مُلَیْکَہ” بتایا جاتا ہے، جبکہ “اُمُّ حَرام” ان کی کنیت ہے۔ آپ کا تعلق مدینہ منورہ کے معزز انصاری قبیلہ بنی نَجّار (خاندانِ خزرج) سے تھا۔ آپ کے والد مِلْحان بن خالد بن زید بن حرام الأنصاری بھی جلیل القدر صحابی تھے، جنہوں نے غزوۂ بدر سمیت متعدد غزوات میں شرکت کی۔ آپ کی والدہ کا نام مُلَیْکَہ بنتِ مالک تھا، جو ایک نیک اور صالح خاتون تھیں۔

حضرت اُمِّ حَرام رضی اللہ عنہا کا خاندان دینِ اسلام کے لیے بے حد قابلِ فخر خدمات پیش کرنے والا تھا۔ آپ کے بھائی حضرت حَرام بن مِلْحان رضی اللہ عنہ بھی صحابی تھے، جو غزوۂ بئر معونہ میں شہید ہوئے۔ آپ کی بہن حضرت اُمِّ سُلَیْم رضی اللہ عنہا (جن کا اصل نام رُمَیْصَاء یا غُمَیْصَاء تھا) بھی جلیل القدر صحابیہ تھیں، جو حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں۔ اس طرح حضرت اُمِّ حَرام رضی اللہ عنہا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں۔

:حضرت اُمِّ حَرام بنتِ مِلْحان رضی اللہ عنہا کا رسول اللہ ﷺ سے رشتہ

حضرت اُمِّ حَرام بنتِ مِلْحان رضی اللہ عنہا کا رسول اللہ ﷺ سے گہرا روحانی اور خاندانی تعلق تھا۔ آپ نہ صرف ایک جلیل القدر صحابیہ تھیں، بلکہ آپ کا خاندان بھی رسول اللہ ﷺ کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھا، جس کی وجہ سے آپ کو نبی کریم ﷺ کی خصوصی توجہ اور محبت حاصل تھی

:خاندانی قربت

حضرت اُمِّ حَرام رضی اللہ عنہا کا تعلق مدینہ کے انصاری قبیلے بنی نجّار سے تھا، جو رسول اللہ ﷺ کے دادا عبدالمطلب کی والدہ سلمیٰ بنت عمرو کے خاندان سے تھا۔ اس لحاظ سے بنو نجّار کو رسول اللہ ﷺ کے نسبی رشتہ داروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ جب نبی ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں قیام فرمایا، جو اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس طرح اُمِّ حَرام رضی اللہ عنہا کا خاندان نبی ﷺ کے انتہائی قریبی اور معتمد صحابہ میں شامل تھا۔

بہن اور بھائی کا رسول اللہ ﷺ سے تعلق

آپ کی بہن حضرت اُمِّ سُلَیْم رضی اللہ عنہا (حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ) رسول اللہ ﷺ کی خاص صحابیہ تھیں۔ نبی ﷺ ان کے گھر تشریف لاتے اور ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔

آپ کے بھائی حضرت حَرام بن مِلْحان رضی اللہ عنہ بھی صحابی تھے، جو واقعۂ بئر معونہ میں شہید ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی شہادت پر بہت غم کا اظہار فرمایا۔

:رسول اللہ ﷺ کی زیارت اور احادیث کی روایت

حضرت اُمِّ حَرام رضی اللہ عنہا نے براہِ راست رسول اللہ ﷺ سے احادیث روایت کی ہیں۔ آپ کے گھر میں نبی ﷺ کا اکثر آنا جانا تھا، اور آپ نے متعدد مواقع پر رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی سعادت حاصل کی۔

:بحری جہاد کی پیشین گوئی اور خصوصی دعا

سب سے مشہور واقعہ جس میں رسول اللہ ﷺ نے اُمِّ حَرام رضی اللہ عنہا کے ساتھ اپنے روحانی تعلق کا اظہار فرمایا، وہ بحری جہاد کی پیشین گوئی ہے۔ ایک دن نبی ﷺ ان کے گھر میں قیلولہ (دوپہر کا آرام) فرما رہے تھے۔ پھر مسکرا کر بیدار ہوئے۔ اُمِّ حَرام رضی اللہ عنہا نے وجہ پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا:

میرے سامنے کچھ لوگ پیش کیے گئے جو بحری جہاد میں اللہ کی راہ میں سوار ہو رہے ہیں، بادشاہوں کی طرح تخت پر بیٹھے ہوئے۔
(صحیح بخاری: 2788)

اُمِّ حَرام رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: “یا رسول اللہ! دعا فرمائیے کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے بنا دے۔”
آپ ﷺ نے دعا فرمائی: “تم انہی میں سے ہو”۔

بعد میں آپ خلافتِ عثمانی کے دور میں قبرص کے بحری جہاد میں شریک ہوئیں اور شہادت پائی، جس سے رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی۔

:رسول اللہ ﷺ کی خصوصی محبت

حضرت اُمِّ حَرام رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے لیے صرف ایک عام صحابیہ نہیں تھیں، بلکہ آپ ﷺ نے انہیں اپنی “اُمّ” (ماں جیسی حیثیت) والا درجہ دیا۔ آپ کا گھرانہ ایمان، جہاد اور خدمتِ دین کا مرکز تھا، جس کی وجہ سے نبی ﷺ ان کے گھر تشریف لاتے اور انہیں دعاؤں سے نوازتے۔

حضرت اُمِّ حَرام رضی اللہ عنہا کا رسول اللہ ﷺ سے خاندانی، روحانی اور علمی گہرا تعلق تھا۔ آپ نہ صرف نبی ﷺ کی قریبی صحابیہ تھیں، بلکہ آپ کو بحری جہاد کی پیشین گوئی جیسی بشارت بھی ملی، جو آپ کے مقام و مرتبے کی واضح دلیل ہے۔ ان کا تعلق نبی ﷺ کے ان صحابہ سے تھا جو ہمیشہ دین کی سربلندی کے لیے کوشاں رہے۔

:ںکاح

حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کی شادی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ہوئی، جو ایک جلیل القدر صحابی، بدری غازی اور بعد میں فلسطین کے گورنر بنے۔ یہ رشتہ محض ایک عام ازدواجی بندھن نہیں تھا بلکہ دینی اور علمی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نہ صرف قرآن کے قاری اور فقیہ تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ کے قریبی معتمدین میں سے بھی تھے۔

دونوں میاں بیوی نے مل کر ایک ایسا گھرانہ تشکیل دیا جو علم دین کا مرکز اور رسول اللہ ﷺ کی آمد و رفت کا مسکن بنا۔ اس گھرانے کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں نہ صرف احادیث کی تعلیم و تبلیغ ہوتی تھی بلکہ جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ بھی پروان چڑھا۔ حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر دین کی خدمت میں بھرپور تعاون کیا اور آخر کار بحری جہاد میں شہادت کا درجہ پاکر رسول اللہ ﷺ کی اس پیشین گوئی کو سچ ثابت کیا۔ یہ شادی درحقیقت انصار و مہاجرین کے مابین رشتہ داری کی ایک کڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مثالی اسلامی خاندان کی تشکیل کا بہترین نمونہ تھی۔

:شہادت اور قبر مبارک

حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کی شہادت کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق، آپ نے 28 ہجری میں قبرص کے بحری جہاد میں حصہ لیا اور راہ خدا میں شہادت کا اعزاز حاصل کیا۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی قیادت میں چلنے والی اس مہم کے دوران جب آپ کشتی سے اتر رہی تھیں تو آپ کا سواری ڈگمگایا جس کے نتیجے میں گر کر آپ شہید ہو گئیں۔

آپ کی قبر مبارک قبرص کے شہر لارناکا میں واقع ہے جو زائرین کے لیے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ مقام نہ صرف ایک تاریخی ورثہ ہے بلکہ مسلمان خواتین کے لیے جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینے کی ترغیب کا بھی پیکر ہے۔ آپ کی شہادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی گواہ بھی ہے اور مسلم خواتین کے لیے عظیم ترین مثال بھی، جو ثابت کرتی ہے کہ ایمان و عزم کی بدولت خواتین بھی تاریخ کے سنہری اوراق میں اپنا نام ثبت کر سکتی ہیں۔

 اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Similar Posts