حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہُ

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اسلام کے عظیم صحابی، عشرہ مبشرہ میں شامل، اور رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر ساتھیوں میں سے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی زندگی ایمان، جہاد، تجارت، اور سخاوت کی روشن مثال ہے۔ آپ نے اسلام کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور امت مسلمہ کے لیے ایک مثالی کردار چھوڑا۔

نام و نسب

آپ کا نام عبدالرحمن بن عوف بن عبدالحارث تھا۔ کنیت “ابو محمد” تھی۔ آپ قبیلہ بنو زہرہ سے تعلق رکھتے تھے، جو قریش کا ایک معزز خاندان تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام شیفاء بنت عوف تھا۔

اسلام قبول کرنا

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔ وہ ابتدائی مسلمانوں میں شامل تھے جنہوں نے مکہ میں کفار کے ظلم و ستم برداشت کیے، لیکن ایمان پر ثابت قدم رہے۔

ہجرت حبشہ اور مدینہ

جب کفار مکہ کے مظالم بڑھ گئے تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو ہجرت کی اجازت دی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ان صحابہ میں شامل تھے جنہوں نے پہلے حبشہ اور پھر مدینہ منورہ ہجرت کی۔

مدینہ میں بھائی چارہ

ہجرت کے بعد رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات قائم کی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بھائی چارہ حضرت سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ سعد بن ربیع نے اپنا آدھا مال پیش کیا، لیکن عبدالرحمن بن عوف نے انکار کرتے ہوئے صرف بازار کا راستہ بتانے کی درخواست کی۔

کامیاب تاجر

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ایک کامیاب تاجر تھے۔ آپ نے مدینہ میں تجارت شروع کی اور اللہ نے آپ کو بے پناہ مال و دولت سے نوازا۔ لیکن آپ نے کبھی دولت کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا بلکہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا۔

جہاد فی سبیل اللہ

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق اور دیگر تمام معرکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ غزوہ بدر میں آپ نے کفار کے خلاف بہادری سے لڑا اور شجاعت کے جوہر دکھائے۔

عشرہ مبشرہ میں شامل

رسول اللہ ﷺ نے جن دس صحابہ کو جنت کی بشارت دی، ان میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ یہ اعزاز صرف انہیں خاص صحابہ کو ملا جو ہر حال میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہے۔

سخاوت اور فیاضی

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بے حد سخی تھے۔ ایک بار آپ نے اپنی پوری تجارتی قافلہ، جو سونے اور چاندی سے لدی ہوئی تھی، اللہ کی راہ میں صدقہ کر دی۔ آپ نے متفقہ طور پر اپنی دولت کا بڑا حصہ امت مسلمہ کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا۔

وفات

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ 32 ہجری میں وفات پا گئے۔ آپ کی وفات پر امت مسلمہ کو بہت دکھ ہوا، کیونکہ وہ ایک عظیم صحابی، سخی، اور عبادت گزار انسان تھے۔ آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔

سبق آموز زندگی

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ:

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ اللہ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

مدینہ منورہ اس روز گہری اور پُر سکون خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا. اچانک لوگوں کو شور سنائی دیا. یہ ایک لمبے چوڑے قافلے کی خبر تھی۔

لوگوں نے پوچھا. “آج مدینہ میں کیا ہوگیا ہے.”

جواب ملا. “یہ عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا قافلہ ہے جو شام سے مال تجارت لے کر آیا ہے۔

کیا قافلہ اتنا بڑا ہے؟” لوگوں نے پوچھا.

“ہاں یہ قافلہ سات سو اونٹوں پر مشتمل ہے اور یہ سارا سامان مدینہ کے غربا میں تقسیم ہو گا.

حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ۔ اپنے عہد میں جزیرہ نمائے عرب کے سب سے مالدار تاجر تھے۔

حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے اپنی زندگی کا آغاز غربت سے کیا۔ جب مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے اور مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات قائم ہوئی تو رسول اللّٰہ ﷺ نے جناب عبدالرحمن بن عوفؓ کو حضرت سعد بن ربیع ؓ کا بھائی بنایا۔ سعد نے عبدالرحمن سے کہا. “بھائی ! میں مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار ہوں، میرا آدھا مال لے لو. اور میری دو بیویاں ہیں جو تمہیں پسند آئے میں اسے طلاق دے دیتا ہوں. تم اس سے شادی کرلو.”

عبدالرحمن بن عوفؓ نے ان سے کہا. ’’اللہ تعالیٰ تمہارے اہل و عیال اور مال میں برکت فرمائے ! مجھے تم صرف بازار کی راہ دکھا دو۔‘‘

پھر آپؓ بازار گئے، کچھ مال خرید کر فروخت کیا اور نفع کما لیا۔آپؓ نے ایک روز اپنے بارے میں رسول اللّٰہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ’’ اے ابن عوف! تم دولت مند ہو ،تم سست روی سے جنت میں داخل ہو گے۔ لہٰذا اللّٰہ کو قرض دو ،تمہارے قدم کھول دیے جائیں گے.”

جس روز سے آپؓ نے رسول اللّٰہ ﷺ کی زبان مبارک سے یہ نصیحت بھرے کلمات سنے ، آپؓ اپنے رب کو قرض حسنہ دینے لگے اور اللّٰہ بھی اس کو کئی گنا بڑھاتا رہا۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے غزوہ تبوک کا ارادہ فرمایا تو صحابہ کو انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا ۔حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ صدقہ و انفاق کرنے والے اس اولین گروہ میں شامل تھے۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے عطیہ کی وصولی کے بعد جناب عبدالرحمنؓ سے پوچھا. “عبدالرحمنؓ ! کیا اہل خانہ کیلئے بھی کچھ چھوڑا ہے؟”

جناب عبدالرحمنؓ نے جواب دیا. “یا رسول اللّٰہ ﷺ ۔۔۔ میں نے ان کے پاس وہ اجر چھوڑا ہے جس کا اللّٰہ اور اس کے رسول اللّٰہ ﷺ نے وعدہ فرمایا ہے.”

اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت آپؓ نے پچاس ہزار دینار فی سبیل اللّٰہ تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ اسلام میں سب سے بلند مرتبہ لوگ وہ سمجھے جاتے ہیں جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ انہوں نے غزوہ بدر میں شرکت کرنے والے زندہ اصحاب میں سے ہر ایک کو چار ہزار دینار دینے کی بھی وصیت کی۔ اپنے ورثاء کے لیے کئی ہزار اونٹ، گھوڑے اور بکریاں ترکہ میں چھوڑ گئے۔ اگر آپ گے مال و دولت کا حساب لگایا جائے تو آج دنیا میں کوئی بھی اتنا امیر نہیں ہو گا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ آپؓ ہمیشہ اس دولت سے خائف رہے ۔ ایک روز آپؓ کے سامنے افطاری کا کھانا رکھا گیا ، کھانے پر آپؓ کی نظر پڑی تو آپؓ رو پڑے اور کہا. ’’مصعب بن عمیر شہید ہوئے ۔ انہیں ایک چادر میں کفنایا گیا ، اگر ان کا سرڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہوجاتے اور اگر پاؤں ڈھانپا جاتا تو سرننگا ہو جاتا۔ حمزہؓ شہید ہوئے ۔ ان کے کفن کیلئے ایک چادر کے سوا کچھ نہ ملا۔ پھر دنیا ہمارے سامنے خوب پھیلا دی گئی اور ہمیں اس سے بہت کچھ عطا ہوا۔ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں ہماری نیکی کا بدلہ ہمیں یہاں ہی نہ دیدیا جائے‘‘۔

جناب عمر فاروقؓ کے بعد نئے خلیفہ کا انتخاب ہونے لگا تو کچھ جید صحابہؓ جناب عبد الرحمٰن بن عوفؓ کی طرف اشارے کرنے لگے ۔ اس موقع پر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا. ’’اللہ کی قسم! اگر چھری لے کر میرے حلق پر رکھ دی جائے اور پھر اسے ایک طرف سے دوسری طرف پھیر دیا جائے تو یہ چیز مجھے خلافت سے زیادہ پسند ہے‘‘۔

(بحوالہ -اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ )

کیا کسی اہلِ اقتدار نے اس بات پہ غور کیا۔ یہ ہے اسلام کے ایک مالدار اور دولت مند شخص کی کہانی۔ کوئی ہے جو عبدالرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ کی اس روایت پہ چل سکے؟ کوئی بادشاہ‘ سلطان‘ شیخ‘ کوئی وزیرِ اعظم ‘ کوئی صدر ‘ کوئی گورنر‘ کوئی مشیر؟

حضرت ابن عوفؓ اپنے مال کے غلام نہیں ،مالک تھے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آتا۔ مالک وہ ہوتا ہے جو اپنا مال بانٹتا ہے اور غلام وہ ہے جو اسے سنبھال کے رکھتا ہے

Similar Posts