خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ

حضرت عثمان بن عفانؓ کا شمار رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابہ کرامؓ میں ہوتا ہے۔ آپؓ کا پورا نام عثمان بن عفان بن ابی العاص بن اُمیہ تھا۔ آپؓ قریش کے مشہور اور معزز خاندان بنو اُمیہ سے تعلق رکھتے تھے، جو مکہ کے بااثر قبائل میں شمار ہوتا تھا۔ آپؓ کی کنیت “ابو عبداللہ” تھی، جو آپؓ کے بیٹے عبداللہ کی نسبت سے مشہور ہوئی۔ رسول اکرم ﷺ نے آپؓ کو “ذوالنورین” کا لقب عطا فرمایا، کیونکہ آپؓ کو یکے بعد دیگرے دو بیٹیوں، حضرت رقیہؓ اور حضرت اُم کلثومؓ سے نکاح کا شرف حاصل ہوا، جو کسی اور صحابیؓ کو نصیب نہ ہوا۔ آپؓ کا شمار عشرہ مبشرہ میں بھی ہوتا ہے، یعنی ان دس خوش نصیب صحابہؓ میں سے ایک جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی گئی۔ حضرت عثمانؓ نہایت باحیا، سخی، نرم دل اور بردبار شخصیت کے مالک تھے، اور آپؓ نے اسلام کے لیے بے شمار مالی قربانیاں دیں، خصوصاً غزوہ تبوک کے موقع پر آپؓ کی سخاوت بے مثال تھی۔

قبول اسلام

حضرت عثمان بن عفانؓ کا قبولِ اسلام ایک نہایت بابرکت اور اہم واقعہ ہے۔ آپؓ نے ابتدائی دور ہی میں، حضرت ابوبکر صدیقؓ کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔ آپؓ ان اولین افراد میں شامل ہیں جنہوں نے بغیر کسی تردد کے دینِ حق کو قبول کیا۔ اس وقت تک اسلام کو اپنانا آسان نہ تھا، کیونکہ قریش کے سردار اور کفار مکہ اسلام کے خلاف سخت دشمنی رکھتے تھے۔ لیکن حضرت عثمانؓ نے دنیاوی رکاوٹوں کی پروا کیے بغیر رسول اللہ ﷺ پر ایمان لایا اور دین اسلام میں داخل ہو کر اپنی سچائی، دیانتداری اور وفاداری کا ثبوت دیا۔ آپؓ کا قبولِ اسلام، اسلام کی تقویت کا باعث بنا، کیونکہ آپؓ نہ صرف ایک معزز قبیلے سے تعلق رکھتے تھے بلکہ تجارت اور سماجی حیثیت کے اعتبار سے بھی اہم مقام رکھتے تھے۔ حضرت عثمانؓ کے اسلام لانے کے بعد قریش کو شدید تکلیف پہنچی، اور انہوں نے آپؓ کو بہت اذیتیں دیں، لیکن آپؓ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔

نکاح

حضرت عثمان بن عفانؓ کا نکاح رسول اللہ ﷺ کی دو صاحبزادیوں سے ہوا، جو آپؓ کی عظمت اور فضیلت کی ایک بڑی دلیل ہے۔ سب سے پہلے آپؓ کا نکاح حضرت رقیہؓ بنتِ رسول ﷺ سے ہوا۔ حضرت رقیہؓ کے ساتھ آپؓ نے حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی اور پھر مدینہ منورہ ہجرت کے بعد وہاں قیام فرمایا۔ حضرت رقیہؓ کا انتقال غزوہ بدر کے موقع پر ہوا، جب آپؓ ان کی تیمارداری کی وجہ سے غزوے میں شریک نہ ہو سکے۔ حضرت رقیہؓ کے وصال کے بعد نبی کریم ﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت اُم کلثومؓ کا نکاح بھی حضرت عثمانؓ سے کر دیا۔ اس وجہ سے آپؓ کو “ذوالنورین” یعنی “دو نوروں والا” کا عظیم لقب ملا، جو صرف آپؓ کو حاصل ہے۔ حضرت اُم کلثومؓ کی وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “اگر میری اور بیٹیاں ہوتیں تو میں وہ بھی عثمان سے بیاہ دیتا”۔ یہ نبی کریم ﷺ کی حضرت عثمانؓ سے محبت اور اعتماد کی اعلیٰ مثال ہے۔

حبشہ کی طرف ہجرت

جب مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم بڑھ گیا اور کفارِ قریش نے اہلِ ایمان کی زندگی اجیرن کر دی، تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہؓ کو حبشہ (موجودہ ایتھوپیا) کی طرف ہجرت کی اجازت دی، جہاں کا بادشاہ نجاشی ایک عادل حکمران تھا۔ حضرت عثمان بن عفانؓ اور ان کی زوجہ محترمہ حضرت رقیہؓ بنتِ رسول ﷺ بھی ان خوش نصیب افراد میں شامل تھے جنہوں نے اسلام کی خاطر اپنا وطن چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ اسلام کی پہلی ہجرت تھی، جس میں حضرت عثمانؓ اور حضرت رقیہؓ کا شامل ہونا ان کی قربانی، ایمان داری اور اللہ و رسول سے محبت کی روشن مثال ہے۔ روایات کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “عثمان وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ اللہ کے راستے میں ہجرت کی”۔ حبشہ میں مسلمانوں کو امن اور سکون ملا اور وہاں کے بادشاہ نے ان کی بھرپور حفاظت کی۔ حضرت عثمانؓ کی یہ ہجرت، اسلام کی تاریخ کا ایک قابلِ فخر باب ہے۔

مدینہ کی طرف ہجرت

جب نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدینہ منورہ (یثرب) ہجرت کا حکم ملا، تو مسلمانوں نے بھی مکہ مکرمہ سے مدینہ کی طرف ہجرت شروع کی۔ حضرت عثمان بن عفانؓ نے بھی اپنی زوجہ حضرت رقیہؓ بنتِ رسول ﷺ کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ یہ ہجرت بھی اسلام کی راہ میں ایک بڑی قربانی تھی، کیونکہ مسلمانوں کو اپنا گھر، کاروبار، اور قریبی رشتے دار چھوڑنے پڑے۔ حضرت عثمانؓ نے نہ صرف یہ قربانی دی بلکہ مدینہ پہنچ کر وہاں کے معاشرے میں جلد گھل مل گئے اور اسلام کی خدمت میں لگ گئے۔

مدینہ منورہ میں آپؓ نے تجارت کو دوبارہ شروع کیا اور بہت جلد مالدار بن گئے، لیکن دولت کو کبھی دنیاوی فخر کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ ہمیشہ دین کی راہ میں خرچ کیا۔ حضرت رقیہؓ کی بیماری کی وجہ سے حضرت عثمانؓ غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے، مگر نبی کریم ﷺ نے انہیں اس میں بھی شریکِ اجر قرار دیا۔ مدینہ کی ہجرت حضرت عثمانؓ کی ایمان داری، فدکاری اور قربانی کا ایک اور روشن پہلو ہے، جس نے اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

سخاوت اور بئر رومہ کی خریداری

حضرت عثمان بن عفانؓ کی سخاوت اسلامی تاریخ میں بے مثال ہے۔ آپؓ نے ہر موقع پر اللہ کے دین کی مدد کے لیے دل کھول کر مال خرچ کیا، اور بغیر کسی ریاکاری کے محتاجوں، مسلمانوں اور اسلامی فتوحات کے لیے مالی تعاون فراہم کیا۔ آپؓ کی سخاوت کا ایک روشن واقعہ بئر رومہ (رومہ کا کنواں) کی خریداری ہے۔

مدینہ منورہ میں پانی کا شدید مسئلہ تھا، اور وہاں ایک میٹھے پانی کا کنواں تھا جسے بئر رومہ کہا جاتا تھا، جو ایک یہودی کی ملکیت تھا۔ وہ مسلمان شہریوں کو پانی بیچتا تھا اور بھاری قیمت وصول کرتا تھا۔ جب نبی کریم ﷺ کو اس صورتحال کا علم ہوا، تو آپﷺ نے فرمایا: “جو شخص بئر رومہ خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دے، اللہ تعالیٰ اسے جنت عطا فرمائے گا۔” حضرت عثمانؓ نے یہ بات سنی تو فوراً یہودی سے بات کی، اور بھاری قیمت دے کر یہ کنواں خرید لیا، اور پھر اسے عام مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا تاکہ ہر کوئی بلا قیمت پانی حاصل کر سکے۔

یہ عظیم کارنامہ نہ صرف حضرت عثمانؓ کی فراخ دلی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ آپؓ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کے لیے ہر وقت حاضر تھے۔ بئر رومہ آج بھی “سبیلِ عثمانؓ” کے طور پر معروف ہے اور آپؓ کے صدقہ جاریہ کی ایک زندہ مثال ہے۔

مختلف غزوات میں حصہ

حضرت عثمان بن عفانؓ نے مختلف غزوات میں بھرپور شرکت کی، اگرچہ بعض مواقع پر ذاتی مجبوری یا رسول اللہ ﷺ کے حکم کی وجہ سے عملی طور پر جنگ میں شریک نہ ہو سکے، لیکن ہر وقت دل و جان سے اسلام کی مدد کی۔ آپؓ کا کردار صرف میدانِ جنگ میں تلوار اٹھانے تک محدود نہ تھا بلکہ آپؓ نے مالی امداد، مشورے اور اخلاقی حمایت کے ذریعے بھی اسلامی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔

غزوہ بدر کے موقع پر حضرت عثمانؓ اپنی اہلیہ حضرت رقیہؓ کی شدید بیماری کی وجہ سے نبی کریم ﷺ کے حکم سے مدینہ ہی میں قیام پذیر رہے۔ اگرچہ وہ عملی طور پر جنگ میں شریک نہ ہو سکے، لیکن نبی کریم ﷺ نے انہیں شرکاءِ بدر میں شامل فرمایا اور ان کے لیے مالِ غنیمت کا حصہ بھی مقرر کیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپؓ کا دل بھی میدانِ جہاد میں شریک تھا۔

غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر اور غزوہ تبوک جیسے اہم معرکوں میں حضرت عثمانؓ نے عملی شرکت کی۔ خاص طور پر غزوہ تبوک میں آپؓ نے بے مثال مالی قربانی دی۔ جب مسلمانوں کو جنگ کی تیاری کے لیے وسائل کی ضرورت تھی تو حضرت عثمانؓ نے 300 اونٹ، 100 گھوڑے اور ایک ہزار دینار اللہ کی راہ میں پیش کیے۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر فرمایا
“عثمان جو کچھ بھی آج کے بعد کرے، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔”

یہ الفاظ حضرت عثمانؓ کی عظمت، اخلاص اور اسلام کے لیے قربانی کی روشن دلیل ہیں۔ آپؓ ہر جنگ میں اپنے کردار سے اسلام کے سپاہی ثابت ہوئے۔

خلافت

حضرت عثمان بن عفانؓ کا دورِ خلافت اسلامی تاریخ کا ایک اہم اور نازک ترین دور تھا۔ آپؓ، حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت کے بعد، مسلمانوں کے باہمی مشورے اور شوریٰ کے ذریعے تیسرے خلیفہ راشد منتخب ہوئے۔ خلافت کا آغاز 24 ہجری میں ہوا اور آپؓ نے تقریباً 12 سال تک امتِ مسلمہ کی قیادت فرمائی۔

آپؓ کے دورِ خلافت کے ابتدائی چھ سال نہایت کامیاب، پُرامن اور خوشحالی سے بھرپور تھے۔ آپؓ نے فتوحات کے سلسلے کو جاری رکھا اور اسلام کی سرحدیں مشرق و مغرب میں مزید وسعت اختیار کرتی گئیں۔ ایران، آرمینیا، آذربائیجان، افریقہ اور قبرص جیسے علاقوں میں اسلامی حکومت قائم ہوئی۔ بحری بیڑے کی تشکیل کا آغاز بھی آپؓ کے دور میں ہوا، جو اسلام کی عسکری تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔

حضرت عثمانؓ نے انتظامی اصلاحات بھی کیں اور اسلامی ریاست کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔ آپؓ کی سب سے بڑی اور یادگار خدمت قرآن مجید کی ایک متفقہ اور مستند نسخے میں تدوین ہے۔ جب مختلف علاقوں میں تلاوت کے لہجوں میں فرق محسوس ہوا تو آپؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی، جس نے قرآن کریم کو قریشی لہجے میں یکساں ترتیب دے کر “مصحفِ عثمانی” کی صورت میں مختلف علاقوں میں تقسیم کیا۔ یہ کام امت مسلمہ کے لیے ایک عظیم نعمت ثابت ہوا۔

شہادت

حضرت عثمان بن عفانؓ کی شہادت اسلامی تاریخ کا ایک بہت دردناک اور تاریخی واقعہ ہے۔ آپؓ کی شہادت 18 ذوالحجہ 35 ہجری کو ہوئی، جب آپؓ کو مکہ مکرمہ کے قریب اپنے گھر میں محصور کر لیا گیا تھا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کچھ باغی عناصر نے آپؓ کی خلافت کے خلاف بغاوت کی اور آپؓ کے خلاف شدید تحریک شروع کر دی۔

یہ باغی افراد حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں پیدا ہونے والی بعض مشکلات اور مالی معاملات کو بنیاد بنا کر آپؓ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے آپؓ کے گھر کا محاصرہ کیا اور کئی دنوں تک آپؓ کو بے حد اذیتیں دیں۔ حضرت عثمانؓ نے اپنے آپ کو مکمل طور پر امن و سکون کی حالت میں رکھا اور آپؓ نے کبھی بھی ان باغیوں کے ساتھ لڑنے کا ارادہ نہیں کیا، تاکہ مسلمانوں میں مزید خونریزی نہ ہو۔

آخرکار، آپؓ کو اس محاصرے میں شہید کر دیا گیا۔ جب آپؓ قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے، تو ایک باغی نے آپؓ پر حملہ کیا اور آپؓ کو شہید کر دیا۔ آپؓ کی شہادت نہ صرف ایک عظیم دینی شخصیت کا نقصان تھا بلکہ یہ اسلامی ریاست کے لیے ایک بہت بڑا المیہ تھا۔

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں غم اور غصہ کی لہر دوڑ گئی، اور آپؓ کی وفات نے ایک نیا سیاسی بحران پیدا کیا۔ تاہم، آپؓ کی شہادت نے یہ ثابت کیا کہ آپؓ نے ہمیشہ اللہ کی رضا کی خاطر اپنی جان کو قربان کیا، اور آپؓ کی وفات کے بعد بھی آپؓ کے ساتھ جڑے ہوئے اسلام کے اصول اور تعلیمات امت کے لیے مشعل راہ بنیں۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے وقت آپؓ کے عادل، سچے اور ایماندار حکمران کی حیثیت کو پوری امت نے تسلیم کیا، اور آپؓ کی قربانی نے آپ کو اسلامی تاریخ میں ایک عظیم مقام دلایا۔

Similar Posts