خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ

تعارف اور ابتدائی زندگی

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اسلام کے دوسرے خلیفہ راشد ہیں، جو اپنی عدالت، سختی اور انصاف پسندی کی وجہ سے تاریخ میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ آپ کا نام عمر، کنیت ابو حفص اور لقب ”فاروق“ ہے، جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کی وجہ سے ملا۔ آپ 584ء میں مکہ میں پیدا ہوئے اور قریش کے معزز قبیلے بنو عدی سے تعلق رکھتے تھے۔ ابتدائی زندگی میں آپ تجارت کرتے تھے اور قریش کے سفیر بھی رہے۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ یعنی ان دس خوش نصیب صحابہ کرام میں سے ایک ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت سنا دی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار ان عظیم شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کی سربلندی کے لیے بے مثال قربانیاں دیں۔ آپ کی جرأت، عدالت اور تقویٰ کی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔” (ترمذی)۔

آپ کی خلافت کے دور میں اسلام کو عظیم وسعت اور قوت ملی، اور آپ کی انصاف پسندی کی داستانیں تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ عشرہ مبشرہ میں شامل ہونے کا اعزاز آپ کی عظیم الشان خدمات اور ایمان کی پختگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

حضرت عمر کا قبول اسلام

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا نہ صرف ان کی ذاتی زندگی کا ایک عظیم موڑ تھا، بلکہ یہ اسلامی تاریخ کا ایک فیصلہ کن واقعہ بھی تھا، جس نے مکہ کے حالات ہی بدل دیے۔ ابتدائی دور میں آپ اسلام کے سخت مخالف تھے اور مسلمانوں کو ستانے میں پیش پیش رہتے تھے۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دل میں تبدیلی ایک عجیب و مشہور واقعے کے بعد آئی۔ روایت ہے کہ ایک دن آپ رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کے ارادے سے تلوار لے کر نکل پڑے۔ راستے میں کسی نے بتایا کہ آپ کی اپنی بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ عنہمادونوں مسلمان ہو چکے ہیں۔ یہ سن کر آپ کا غصہ اور بڑھ گیا، اور وہ فوراً اپنی بہن کے گھر پہنچ گئے۔ ان کی بہن قران پاک کی تلاوت کر رہی تھی۔ جب اس نے دیکھا کہ عمر انتہائی غصّے کی حالت میں کھڑے ہیں اس نے قران پاک کے صحفوں کو چھپانا چاہا لکن وہ پہلے سے دیکھ چکے تھے۔ پوچھنے پر اپنی بہن کو بہت مارا، کہ ان کے چہرے سے خون نکل کر بہنے لگا، تو ان کا دل بھر آیا۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ کیا پڑھ رہی تھی۔ بہن نے قرآن پاک کی سورہ طہٰ کی آیات سنائیں۔ یہ آیات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دل نرم پڑ گیا، اور انہوں نے فوراً رسول اللہ ﷺ کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔

اس وقت مشرکین کی خوف سے رسول اللہ ﷺ دارِ ارقم میں چپھے ہوئے تھے وہ وہاں پہنچے، تو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر کہا کہ اگر عمر کے اچھے ارادے ہیں تو ٹھیک، ورنہ ان کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں اندر آنے دیا۔ جب آپ نے اسلام کی دعوت دی، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فوراً کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔

ان کے اسلام لانے کی خبر جب قریش تک پہنچی، تو وہ سکتے میں آ گئے، کیونکہ اب اسلام کو ایک طاقتور حمایتی مل چکا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے بعد مسلمانوں نے پہلی بار کھلم کھلا بیت اللہ میں نماز ادا کی، جس سے اسلام کو عروج ملا۔ یوں ایک زمانے کے دشمنِ اسلام، اسلام کے سب سے بڑے محافظ اور مدافع بن گئے۔

نکاح

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پہلا نکاح زینب بنت مظعون رضی اللہ عنہا سے ہوا جو جلیل القدر صحابیہ تھیں۔ یہ نکاح اسلام سے قبل مکہ میں ہوا تھا۔ اس نکاح سے حضرت عمر کو تین اولادیں ہوئیں: حضرت عبداللہ بن عمر (جو بعد میں جلیل القدر محدث بنے)، حضرت حفصہ (جو رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ ہیں) اور حضرت عبدالرحمن بن عمر۔

جب زینب بنت مظعون کا انتقال ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ملکہ بنت جرول الخزاعیہ سے نکاح کیا۔ اس سے ایک بیٹا عاصم بن عمر ہوا جس کا شمار فقہائے مدینہ میں ہوتا ہے۔ تاہم جب ملکہ نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا تو حضرت عمر نے شرعی اصولوں کے مطابق انہیں طلاق دے دی۔

تیسرا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جمیلہ بنت ثابت انصاریہ سے کیا جو انصار کی معزز خاتون تھیں۔ یہ نکاح مدینہ منورہ میں ہوا تھا۔ اس نکاح سے انہیں ایک بیٹا عیاض بن عمر ملا جو بعد میں بصرہ کے والی بنے۔

چوتھا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عاتکہ بنت زید بن عمرو بن نفیل سے ہوا جو بہت ذہین اور فصیح اللسان خاتون تھیں۔ یہ نکاح خلافت کے دور میں ہوا۔ عاتکہ پہلے عبداللہ بن ابی بکر کی زوجہ تھیں جن کا انتقال ہو گیا تھا۔ حضرت عمر ان کی علمی صلاحیتوں سے بہت متاثر ہوکر ان سے نکاح کیا۔

رسول اللہ ﷺ کے دور میں خدمات

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا۔ ہجرت کے موقع پر انہوں نے کھلم کھلا مکہ چھوڑنے کا اعلان کیا، جبکہ دیگر مسلمان خفیہ طور پر مدینہ جا رہے تھے۔ مدینہ منورہ میں بھی آپ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ غزوہ بدر، احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں شریک رہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی آپ نے اہم کردار ادا کیا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں کردار

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے سب سے قریبی مشیر تھے۔ مرتدین کے خلاف جنگوں اور اسلامی سلطنت کے استحکام میں ان کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ منتخب کریں، جسے صحابہ نے قبول کر لیا۔

خلافت کا آغاز اور انتظامی اصلاحات

حضرت عمر رضی اللہ عنہ 23 اگست 634ء کومسلمانوں کا دوسرا خلیفہ راشد بنے۔ ان کے دور خلافت کو اسلامی تاریخ کا سنہری دور سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے انتظامیہ کو جدید خطوط پر استوار کیا اور کئی اہم اصلاحات نافذ کیں

عدالتی نظام: باقاعدہ قاضی مقرر کیے اور قانون کی بالادستی قائم کی۔

مالیاتی نظام: بیت المال کا محکمہ قائم کیا اور محصولات کی منصفانہ تقسیم کی۔

فوجی انتظام: مستقل فوجی چھاؤنیاں بنائیں اور فوج کو جدید خطوط پر منظم کیا۔

تعلیمی نظام: مساجد کو تعلیمی مراکز کے طور پر فروغ دیا۔

فتوحات اور اسلامی سلطنت کی توسیع

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی سلطنت نے بے پناہ توسیع کی۔ چند اہم فتوحات درج ذیل ہیں

ایران کی فتح: قادسیہ (636ء) اور نہاوند (642ء) کی فیصلہ کن جنگیں۔

شام کی فتح: یرموک (636ء) کی جنگ میں رومی فوج کو شکست۔

مصر کی فتح: عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں مصر فتح ہوا۔

فلسطین اور بیت المقدس: 637ء میں بیت المقدس فتح ہوا، جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خود معاہدہ کیا۔

معاشرتی اور سماجی اصلاحات

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معاشرے کو منظم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے

پہلی مردم شماری: ریاستی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے۔

جیل خانے بنائے: مجرموں کو سزائیں دینے کے لیے باقاعدہ جیل خانے قائم کیے۔

عورتوں کے حقوق: مہر کی ادائیگی کو لازمی قرار دیا اور عورتوں کے حقوق کا خاص خیال رکھا۔

یتیموں کی کفالت: بیت المال سے یتیموں اور بیواؤں کی مدد کی گئی۔

شخصیت اور اوصاف

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت بے مثال تھی۔ آپ انتہائی دیانتدار، بے خوف اور انصاف پسند تھے۔ آپ کی چند نمایاں صفات یہ تھیں

عدل و انصاف: آپ کا عدالتی نظام آج بھی مثال دیا جاتا ہے۔

سادگی: خلیفہ ہونے کے باوجود معمولی زندگی گزارتے تھے۔

رحم دلی: غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنا آپ کا شیوہ تھا۔

دور اندیشی: آپ کی پالیسیاں دوررس اثرات کی حامل تھیں۔

وفات اور تاریخی ورثہ

7 نومبر 644ء کو ایک مجوسی غلام فیروز (ابو لؤلؤہ) نے نماز کے دوران آپ پر خنجر سے حملہ کر دیا، جس سے آپ شدید زخمی ہوئے اور تین دن بعد شہید ہو گئے۔ آپ کی وفات سے پورا اسلامی عالم سوگوار ہو گیا۔ آپ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تیسرے خلیفہ منتخب ہوئے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت اسلامی تاریخ کا ایک تابناک باب ہے۔ آپ کے دور میں اسلام کو عروج ملا اور دنیا کی عظیم سلطنت وجود میں آئی۔ آپ کا عدالتی نظام، انتظامی اصلاحات اور فتوحات آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی زندگی ہر مسلمان کے لیے ایک نمونہ ہے۔ آپ کی عدالت، انصاف اور عوامی خدمت کی روایات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آپ کا دور خلافت اسلامی تاریخ کا ایک سنہری دور تھا، جس میں اسلام نے سیاسی، سماجی اور فوجی اعتبار سے بے پناہ ترقی کی۔

Similar Posts